امجد (فرضی کردار) ایک نجی دفتر میں کلرک ہیں اور ان کی ماہانہ تنخواہ 25 ہزار روپے ہے۔ ان کا گیس کا بل 28 ہزار روپے آیا ہے۔ چار بچوں، بیوی اور بوڑھے ماں باپ کی ذمہ داری ان پر ہے۔
ہر مہینے بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے کے بعد تنخواہ ختم ہو جاتی ہے اور بقیہ مہینہ ادھار مانگ کر گزارا کرنا پڑتا ہے، لیکن اس ماہ تنخواہ سے زیادہ گیس کا بل آ گیا، جسے وہ ادا نہیں کر سکتے۔
نئی حکومت بننے اور وزیر اعظم کے خوشحالی لانے کے دعوؤں کے بعد وہ سوچنے لگے کہ شاید مہنگائی میں کمی ہو گی لیکن جب سے انہوں نے خبر پڑھی کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے ایک نیا معاہدہ کرنا ہے تب سے ان کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔
وہ سوچتے ہیں کہ جب بھی آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی نیا معاہدہ ہوا تو مزید مہنگائی بڑھی۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ نئی حکومت کی کارکردگی کو اس وقت بہتر مانیں گے جب آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں بجلی اور گیس کے بل کم ہوں، انہیں مزید ادھار نہ لینا پڑے اور ان کے بچے پیٹ بھر کر تین وقت کھانا کھا سکیں۔
اگر مہنگائی مزید بڑھ گئی تو نئی حکومت کے دعوے بھی عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہوں گے۔
اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے بتایا کہ ’پچھلے دو سال سے افراطِ زر کی شرح 24 فی صد سے اوپر رہی۔ ایسے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مہنگائی عوام کے لیے ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے جس نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی اور اس پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’آئی ایم ایف کا مقصد مہنگائی کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف مالیاتی خسارہ اور پرائمری خسارہ ختم کرنے کا کہہ رہا ہے، جس پر حکومت متفق ہے۔
’لیکن یہ کس طرح ہو گا حکومت کے پاس مہنگائی کرنے کے علاوہ کوئی پالیسی نہیں۔ ایکسٹنڈڈ فنڈ فسیلٹی کے اہداف پر اگر آئی ایم ایف مطمئن نہ ہوا تو ممکن ہے کہ حکومت کو مزید سخت فیصلے کرنا پڑیں جس سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو جائے۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے بتایا کہ ’پاکستان درآمدات پر انحصار کرنے والا ملک ہے۔ اس لیے مہنگائی اور ڈالر ریٹ کا بہت گہرا تعلق ہے۔
’آئی ایم ایف معاہدے سے ڈالر ریٹ بڑھتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی سرکار نے آئی ایم ایف کو اس بات پر راضی کر لیا ہے کہ ڈالر ریٹ مزید نہیں بڑھنا چاہیے۔
’اس لیے پچھلے آٹھ ماہ سے ڈالر ریٹ میں زیادہ اتار چڑھاؤ نہیں ہوا۔ اگر ڈالر ریٹ نہیں بڑھتا تو آئی ایم ایف معاہدے سے مہنگائی میں اتنا اضافہ نہیں ہو گا جتنا ماضی میں ہوا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں مہنگائی بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں سے براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ صرف فروری میں گھریلو صارفین کے لیے گیس 67 فیصد اور انڈسٹری کے لیے 700 فیصد تک اضافہ کیا گیا۔
’فروری میں ہی بجلی کی قیمت میں سات روپے پانچ پیسے اضافہ کیا گیا۔ اس کی وجہ آئی ایم ایف نہیں بلکہ بجلی اور گیس چوری ہے۔
’آئی ایم ایف بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے کی شرط نہیں رکھتا۔ اس کا مطالبہ بجلی اور گیس کی چوری روکنا اور اداروں کو منافع میں چلانا ہے۔ اگر چوری نہ رکی تو مہنگائی مزید بڑھے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق حکومتی مشیر ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق آئی ایم ایف کا وفد ایکسٹنڈڈ فنڈ فسیلٹی کے تیسرے جائزے کے لیے آیا ہے، نہ کہ نئے معاہدے کے لیے۔
’اس کے اہداف پہلے سے طے شدہ ہیں اور کافی کام بھی ہوا۔ کچھ رپورٹس پر اختلاف رائے ہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ جب تک آئی ایم ایف رپورٹس نہ دیکھ لیتی ’سب اچھا ہے‘ کی آواز نہ لگاتی۔‘
ان کے مطابق: ’سٹینڈ بائے ارینجمینٹ مکمل کرنے کے لیے شاید مزید مہنگائی نہ کرنی پڑے لیکن اس کے بعد والے معاہدے کے نتیجے میں مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔
’ابھی تک بینکوں کو تمام ایل سیز کھولنے کی اجازت نہیں۔ نئے معاہدے میں آئی ایم ایف اس پر اعتراض اٹھا سکتا ہے، جس سے ڈالر ریٹ اور مہنگائی بڑھ سکتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مہنگائی کا انحصار شرح سود پر ہوتا ہے۔ ایکسٹنڈڈ فنڈ فسیلٹی ہو یا نیا معاہدہ، آئی ایم ایف معاہدے میں پالیسی ریٹ کم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
’شرح سود پہلے ہی انڈر ویلیو ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق مہنگائی اور شرح سود برابر ہونے چاہییں۔‘
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ ’ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی کے اہداف حاصل کیے جا چکے۔ بجلی اور گیس کے ریٹس بڑھا دیے گئے۔ ایف بی آر کے اہداف حاصل کر لیے گئے لہذا اس ارینجمینٹ کو مکمل کرنے کے لیے مزید مہنگائی کرنے کی ضرورت نہیں۔ نئے پروگرام اور نئے بجٹ میں کیا ہو گا اس بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔