ایک دور تھا جب انڈیا اور پاکستان کے مسلمان گھرانوں میں تاج کمپنی کراچی کے اشاعت ہونے والے قران کی خوبصورت جلدیں موجود ہوتی تھیں۔
اس کے علاوہ اہم مذہبی کتابیں بھی ہوتی تھیں، جس کے اوپر کسی نہ کسی پاکستانی ادارے کا لوگو ہوتا تھا۔
دراصل انڈیا میں ہمیشہ پاکستانی قرآن کی نقل شائع ہوتی رہی ہیں۔ دہلی کے ایرانی آرٹ پریس کے مالک محمد شفیق صدیقی بتاتے ہیں کہ پاکستان سے شائع ہونے والی قرآن کی نقل بڑے دھڑلے سے دہلی کے چھاپہ خانوں میں تیار ہوتی تھی۔ جس پر کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی کوئی مقدمہ ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ ’جب انڈیا اور پاکستان کا بٹوارا ہوا تو اکا دکا خطاط کے علاوہ باقی خطاط پاکستان چلے گئے۔ قرآن شائع کرنے کے لئے بہترین خطاطی کی ضرورت تھی، جس میں بہت زیادہ پیسہ لگتا تھا۔‘
ان کے مطابق ’تاج کمپنی کے ذریعے شائع ہونے والے قرآن کی کاپی جب ہمارے ہاتھ لگی تو شروعات میں دیگر ممالک سے قرآن درآمد کیے گئے مگر بعد میں ہم نے اس کی نقل تیار کر لی اور شائع کرنا شروع کر دیے جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔‘
شفیق صدیقی کے مطابق ’آج بھی انڈیا میں بکنے والے 80 فیصد قرآن تاج کمپنی کی نقل ہیں۔‘
شفیق صدیقی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میری پیدائش پرانی دہلی کی ہے۔ ہمارے والد کے پاس لیتھو پریس تھا، آفسیٹ نہیں تھا۔ انڈیا میں بھی نہیں تھا اور لیتھو پر ہاتھ سے خطاطی ہوتی تھی پیلے کاغذ پر۔
’ہم ایک سال میں 25 یا 30 ہزار قرآن چھاپ لیتے ہیں۔ پورے انڈیا میں قرآن کی سپلائی 80 فیصد دہلی سے ہوتی ہے۔ باہر اتنا نہیں چھپتا جتنا دہلی سے چھپ کر جاتا ہے۔
’اس کے علاوہ ’ترجمہ قرآن‘ شائع ہوتا ہے۔ جیسے اعلیٰ حضرت کا ترجمہ، اس کی تعداد مولانا اشرف علی تھانوی کے مقابلے میں زیادہ ہو گئی ہے۔ ہم جو چھاپتے ہیں وہ پاکستانی قران کی کاپی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’یہاں جن لوگوں نے نیٹ پر ڈالا، وہ بھی چلتا ہے، لیکن وہ کامیاب نہیں جبکہ پاکستانی کاپی کو پڑھنے میں آسانی ہے اور اس کی خطاطی بہت خوبصورت ہے۔ پاکستان میں ایک تاج کمپنی ہے، انہوں نے قرآن چھاپا۔
’اس پر نمبر دیا ہے، نمبر تین۔ ایسے ہی ایک ترجمہ والا ہے، اس کا نمبر ہے 81۔ اس میں مولانا اشرف علی تھانوی کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے خود اپنی خطاطی کروائی۔ پاکستانی قرآن کی نقل کرنے کی اجازت کسی نے نہیں لی اور نہ ہی کسی نے ہمارے اوپر مقدمہ کیا۔‘
پرنٹنگ سے وابستہ محبوب الرحمان نے بتایا کہ ’پاکستان کے ڈیزائن یہاں اور یہاں کے پاکستان میں کاپی ہوتے ہیں۔ قرآن میں خاص طور پر اس لیے کہ تاج کمپنی نے کافی کام کیا۔ نئے نئے نسخے نکالے، اس کی وجہ سے وہ یہاں مشہور ہوئے اور چھپے بھی۔‘
ان کے مطابق ’پاکستانی حکومت کی پالیسی کی وجہ سے ہم قرآن درآمد نہیں کر سکتے اس لیے ہمیں یہیں قرآن کو شائع کرنا پڑا۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔