سندھ میں تھرپارکر، عمرکوٹ، سانگھڑ اور میرپور خاص اضلاع میں بسنے والی سوٹھڑ برادری کا خاندانی پیشہ لکڑی سے فرنیچر بنانا اور اس پر نقش نگاری کرنا ہے۔
فرنیچر بنانے کے اس کام میں ان کی اتنی مہارت ہے کہ وہ لکڑی دیکھ کر پہچان لیتے ہیں کہ یہ لکڑی کس درخت کی ہے اور اس لکڑی سے کون سا سا فرنیچر بن سکتا ہے۔
عمرکوٹ سے 20 کلومیٹر شمال میں جانھیرو نامی گاؤں میں رہنے والے 80 سالہ ہرچند را سوٹھڑ اس وقت اپنی برادری اور علاقے میں لکڑی سے فرنیچر بنانے اور اس پر نقش نگاری کے کام کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔
ہرچند را نے عمرکوٹ شہر کی عمر فاروق مسجد کی چار کھڑکیوں اور ایک دروازے پر ایسے نقوش بنائے ہیں کہ جسے دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔
اس مسجد کے کام کے حوالے سے ہرچند را کہتے ہیں کہ ’عمر فاروق مسجد کا یہ کام میں نے دلی محبت اور عقیدت سے کیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’یہ کام کرتے ہوئے مجھے بڑا دلی سکون مل رہا تھا۔ آج بھی جب اس مسجد والی گلی سے گزرتا ہوں اور اپنے کام کو دیکھتا ہوں تو سکون ملتا ہے اور خوشی محسوس ہوتی ہے۔ یہ کام کرنے میں ہمیں تین سال لگ گئے۔ ہم نے یہ کام 2003 میں شروع کیا اور 2006 میں مکمل کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ اس کام کو مکمل کرنے میں چار لوگوں کی محنت لگی، جن میں ان کا ایک بیٹا، دو مزدور اور وہ خود شامل تھے۔
بقول ہرچند را: ’مجھے جو ہنر آتا تھا وہ اس کام میں لگانے کی کوشش کی ہے، اس لیے میرا یہ کام بڑا مشہور ہوا ہے۔ اس کام کو دیکھنے والے جو لوگ آتے ہیں وہ اسے بہت سراہتے ہیں۔ میں قاسم سراج سومرو کو دعائیں دیتا ہوں، جنہوں نے مجھے یہ کام کرنے کا موقع دیا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس مسجد کے کام میں ہم نے ساگواں کی لکڑی استعمال کی ہے، جسے اب برماں ٹیک کہتے ہیں۔ ساگواں کی لکڑی انڈیا سے بھی آتی ہے اور برما سے بھی آتی ہے۔ انڈیا کی لکڑی میں خوشبو اور چکناہٹ برما کی ساگواں کی لکڑی سے زیادہ ہوتی ہے۔‘
ہرچند را بتاتے ہیں کہ فرنیچر کے کام میں اب جدت آ گئی ہے اور اب سارا کام مشینوں پر ہوتا ہے۔
مشینوں نے کام آسان تو کر دیا ہے مگر اس وجہ سے ہاتھ سے کام کرنے والے سوٹھڑ برادری کے لوگوں نے اس کام کو چھوڑ کر دوسرے کاروبار اور ملازمتیں کرنا شروع کر دی ہیں۔
بقول ہرچند را: ’مشینوں کے کام اور ہمارے کام میں بہت بڑا فرق ہے۔ ہمارے ہاتھ کے کام میں صفائی زیادہ ہوتی ہے۔ اس کام کو ہم بڑی باریک بینی سے کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ڈرائنگ پیپر پر ذیزائن بناتے ہیں۔ اس میں ہم فرنیچر کے سائز کو نظر میں رکھتے ہیں، مگر پھر بھی اصل ڈیزائن پیپر پر نہیں ہوتا بلکہ ہمارے دماغ میں ہوتا ہے۔‘
فرنیچر پر ڈیزائن بنانے کے اس کام کو وہ کھود کا کام کہتے ہیں، جس کی تین مختلف اقسام ہیں: کٹنھارم، پھول پتی اور زنگی گل۔ اس کے علاوہ پیتل، چاندی، سونے، عاج اور سیپوں سے بھی فرنیچر پر ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔
ہرچند را کہتے ہیں کہ ’پھول پتی ڈیزائن میں پھول پتے اور مکھڑیاں بناتے ہیں۔ کٹنھار میں چھوٹے اور بڑے پتے ہوتے ہیں اور زنگی گل میں ہم ڈیزائن تو بناتے ہیں مگر وہ لکڑی پر ابھرے ہوئے نہیں ہوتے۔ پیتل کے کام میں پیتل کے پتے کراچی میں بنے بنائے مل جاتے ہیں۔ ہم صرف لکڑی پر کھدائی کر کے ڈیزائن بنا کر انہیں لگاتے ہیں۔ چاندی اور سونے کے کام کے لیے سنار کو ڈیزائن پیپر پر بنا کر دیتے ہیں۔ وہ اس ڈیزائن کے حساب سے کام کر کے دیتا ہے۔‘
ان کے ہاتھ کا بنا ہوا فرنیچر اب تک لاڑکاںہ، دادو، نواب شاہ، کراچی، اسلام آباد اور دوسرے بہت سے شہروں میں جا چکا ہے جبکہ سندھ کے بڑے بڑے سیاسی خاندان بھی ان سے فرنیچر کا کام کرواتے ہیں۔
اس وقت وہ محمد قاسم ساند کی مسجد کے لیے لکڑی کا محراب بنا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’ایک تو لوگوں کو سستا کام چاہیے اور دوسرا جلدی چاہیے۔ یہ دونوں چیزیں اس کام میں تو نہیں ہو سکتیں۔ یہ کام وقت لیتا ہے اور دوسرا جس لکڑی پر یہ کام ہوتا ہے وہ بہت مہنگی ہے، اس لیے یہ کام ہر کوئی نہیں کروا سکتا۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔