پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے کرتا دھرتا بھی بادشاہ لوگ ہیں۔ کس مہارت سے ایک ہی پریس ریلیز کو بار بار استعمال کرتے ہیں بس نام بدل دیتے ہیں ورنہ زیر زبر پیش بھی تبدیل نہیں ہوتے۔
شاہین شاہ آفریدی سے کپتانی کا تاج لے کر ایک بار پھر بابر اعظم کے سر رکھ دیا ہے جسے چند ماہ قبل یہ کہہ کر ہٹایا گیا تھا کہ اس اضافی بوجھ کپتانی کے بوجھ سے بیٹنگ پر منفی اثر پڑ رہا تھا۔ جو مہارت بیٹنگ میں ہے وہ کپتانی میں نظر نہیں آرہی۔
شاہین شاہ آفریدی جن پر تقدیر کا ہما اس قدر مہربان ہے کہ اس وقت کپتانی مل گئی جب بقول شخصے دودھ کے دانت بھی نہیں گرے تھے۔ لاہور قلندرز کی کپتانی نے اتنا راستہ ہموار نہیں کیا جتنا بابر اعظم کے سابق چیئرمین ذکا اشرف سے چپقلش نے کیا۔
قیادت کا تاج تو ویسے محمد رضوان کے سر پر آنا تھا لیکن شاہد آفریدی سے رشتہ داری نے کپتان بنوا دیا۔ شاہد آفریدی ویسے بھی آج کل اس حلقہ کے نمائندے ہیں جو صرف اپنے ادارے میں کپتان نہیں بناتا بلکہ جہاں چاہے بنا دیتا ہے۔
بورڈ نے کمال مہربانی خوبصورت الفاظ میں شاہین آفریدی کو سبکدوش کیا اور روایت کے مطابق ان کی مرضی بھی شامل کردی کہ وہ بھی یہی چاہتے تھے۔
بورڈ نے فاسٹ بولر کی فٹنس کو وجہ بتایا لیکن بائیں ہاتھ کے بولر شاہین آفریدی تو کپتانی کو فٹنس کا منبع قرار دیتے ہیں۔
فاسٹ بولرز کپتان
فاسٹ بولرز عموماً بہت کم کپتان بنتے ہیں۔ اس وقت بھی ٹیسٹ کھیلنے والے ممالک میں آسٹریلیا کے پیٹ کمنز واحد کپتان ہیں۔ ماضی میں عمران خان، کپیل دیو، کورٹنی والش، شون پولک اور باب ولس اپنی ٹیموں کے اچھے کپتان رہے ہیں اور فاسٹ بولنگ کے ساتھ کپتانی میں بھی جوہر دکھائے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دوسرے ممالک میں فاسٹ بولرز زیادہ کپتان نہیں بن سکے لیکن پاکستان میں فاسٹ بولرز کسی بھی ملک سے زیادہ کپتان بنے ہیں۔
پاکستان کے سب سے پہلے فاسٹ بولر کپتان فضل محمود تھے وہ مختصر مدت یعنی دس میچوں میں کپتان رہے۔ اس زمانے میں کرکٹ شاید اتنی ہوتی بھی نہیں تھی۔ وہ اپنی اولیں سیریز ویسٹ انڈیز سے تو جیت گئے لیکن آسٹریلیا اور انڈیا سے شکست نے انہیں فارغ کرا دیا۔
پاکستان نے ان کے بعد بیس سال تک کسی فاسٹ بولر کو کپتان بنانے سے گریز کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پاکستان نے دس سال تک کوئی اچھا فاسٹ بولر پیدا ہی نہیں کیا۔ تیز بولرز کی عدم دستیابی پر ٹیم نے سپنرز کو اپنا اہم خزانہ سمجھ لیا۔
پاکستان کی تاریخ کے دوسرے فاسٹ بولر کپتان عمران خان تھے جو 1982 میں اس وقت کے کپتان جاوید میاں داد کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں کپتان بنے جب سری لنکا کی نوزائیدہ ٹیم پاکستان کا دورہ کررہی تھی۔
عمران خان کو پاکستان کے سب سے کامیاب اور طاقتور کپتان تصور کیا جاتا ہے جو اپنی ٹیم خود منتخب کرتے تھے۔ وہ بورڈ کے کسی عہدیدار سے ملاقات کرتے تھے اور نہ کسی میٹنگ میں شریک ہوتے تھے۔
وہ ہر دورہ سے قبل اپنی ٹیم کے ارکان کے نام بورڈ کو سفری دستاویزات کے لیے بھیج دیتے تھے۔ ان کے اثر رسوخ کا یہ عالم تھا کہ کئی ٹیسٹ ڈیبیو ایسے ہوئے جن کا بورڈ کو علم نہیں تھا۔ اعجاز، عامر ملک، ذاکر خان وہ کھلاڑی تھے جنہیں عمران نے خود ٹیسٹ کیپ دلوائی۔ بورڈ کے عہدیدار قطعی طور پر لاعلم تھے۔
عمران خان کے اگر اعداد وشمار کو دیکھیں تو اتنے خاص نظر نہیں آتے ہیں۔ 48 ٹیسٹ میچوں میں قیادت کی اور صرف 14 جیتے جبکہ آٹھ ہار گئے جبکہ 139 ایک روزہ میچوں میں قیادت کی جن میں 77 میں جیت اور 57 میں شکست ملی۔
لیکن عمران خان کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ٹیم کو جیتنے کی عادت ڈالی اور ایسے مشکل میچ جیتے جہاں شکست یقینی تھی۔ ان کے جنگجو انداز اور مستقل مزاجی نے انہیں ایک منفرد کپتان بنا دیا۔ وہ اپنی ٹیم کے آئیڈیل بن چکے تھے۔ اکثر کھلاڑی ان کے انداز کو کاپی کرتے تھے۔ ورلڈکپ کی جیت نے انہیں امر کر دیا اور وہ ایک تاریخی دیومالائی شخصیت بن گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے تیسرے کپتان وسیم اکرم تھے جن کا کپتانی کا کیرئیر ہوشربا واقعات کا مجموعہ رہا۔ میچ فکسنگ اور کھلاڑیوں میں اختلافات نے ان کی کپتانی کو متنازعہ بنا دیا۔ وہ ایک عظیم فاسٹ بولر تھے لیکن ان کے عظمت کے چراغ کو ان کی کپتانی نے ٹمٹما دیا۔ 25 میچوں میں وہ 12 ٹیسٹ میچ جیت سکے لیکن جن آٹھ میچوں میں شکست ہوئی ان میں سے کچھ مزید جیتے جاسکتے تھے۔
وسیم اکرم ایک روزہ کرکٹ میں 109 میچوں میں کپتان رہے اور 66 میں جیت ان کا سہرا لیکن کئی اہم میچوں میں غیر حاضری نے انہیں عظیم کپتان سے بننے محروم رکھا۔ وہ ورلڈ کپ 1999 کے فائنل میں ٹیم کی پسپائی کا کبھی مناسب جواب نہیں دے سکے ہیں۔ وہ کئی ایسے مواقعوں پر ٹیم سے باہر ہوگئے جب ان کی سخت ضرورت تھی۔
وقار یونس پاکستان کے چوتھے فاسٹ بولر کپتان تھے وہ 17 میچوں میں کپتان رہے اور دس جیت بھی گئے۔ ایک روزہ میچوں میں 62 میں قیادت کی اور 37 میں فتح حاصل کی لیکن ان کی کپتانی بھی تنازعات سے بھرپور رہی اور 2002 ورلڈ کپ میں بدترین کارکردگی نے کیرئیر ہی ختم کر دیا۔ وقار یونس کپتانی کے جوہر سے ناآشنا تھے لیکن سابق چیئرمین کے لاڈلے ہونے کے باعث کپتان بن گئے۔
شاہین شاہ آفریدی آخری کپتان تھے جن کی قیادت میں پاکستان نے پانچ میچ کھیلے اور چار میں شکست نے ان کو وقت سے پہلے اس وقت فارغ کر دیا جب ابھی ہاتھوں کی مہندی بھی نہیں اتری تھی۔
کیاکپتانی سے بولنگ متاثر ہوتی ہے؟
یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کپتانی فاسٹ بولنگ کو متاثر کرتی ہے لیکن فاسٹ بولرز کو عمومی طور پر ایک جارحانہ رویہ کا حامل سمجھا جاتا ہے جو مخالف ٹیم کے ساتھ اپنے ساتھی کھلاڑیوں کے لیے بھی خوشگوار تعلقات میں کمزور رہتا ہے۔
اگرچہ پیٹ کمنز نے یہ بات غلط ثابت کی ہے لیکن ماضی میں دوسرے فاسٹ بولرز کپتانوں کے ساتھ امپائرز سے لے کر کھلاڑیوں تک مسائل بڑھتے رہے ہیں۔
فاسٹ بولنگ چونکہ ایک سخت اور مشقت آمیز شعبہ ہے جس میں جسمانی محنت کے ساتھ ذہنی مضبوطی بھی بہت اہم ہوتی ہے۔ اس لیے فاسٹ بولرز بولنگ کے علاوہ دیگر شعبوں میں سرد مہر رہتے ہیں۔ ان کی اس روایتی سردمہری سے کپتانی پر اثر پڑتا ہے۔
اگر وہ کپتانی پر زیادہ توجہ دیں تو بولنگ میں کم وقت ملتا ہے۔ پاکستانی کرکٹ میں چپقلشوں اور باہمی جھگڑوں کے باعث کپتانی کانٹوں کی سیج ثابت ہوتی ہے۔ ایسے میں فاسٹ بولر اگر کپتان ہو تو کارکردگی میں تنزلی نظر آتی ہے۔ ماضی کے کپتانوں میں صرف عمران خان کا دور سنہرا رہا باقی اکثر ادوار تلخ یادوں کے مجموعہ رہے۔
پی سی بی نے شاہین شاہ آفریدی کو سبکدوش کرنے کی وضاحت کرنے میں ناکام ہے کہ جب بابر اعظم کو بری کپتانی پر ہٹایا گیا تھا تو دوبارہ کس کارکردگی پر بنا دیا گیا؟
فاسٹ بولرز پاکستان ٹیم کے لیے ماضی میں بہت سی فتوحات سمیٹتے رہے ہیں اور کپتانی سے بھی ٹیم کو سرفراز کیا ہے لیکن شاہین شاہ آفریدی کو ہٹانے میں بورڈ کچھ زیادہ جلدی کرگیا ہے کیونکہ صرف پانچ میچوں کے بعد کپتانی کی تبدیلی کوئی دانش مندانہ فیصلہ نظر نہیں آتا ہے۔
شاہین شاہ اپنی تقدیر پر ضرور نالاں ہوں گے کیونکہ چند دنوں میں نیوزی لینڈ کی قومی ٹیم پانچ ٹی ٹوینٹی میچ کھیلنے پاکستان آرہی ہے۔ اور اس میں صف اول کا کوئی کھلاڑی شامل نہیں ہے۔
پاکستان یقینی طور پر کلین سوئپ کرے گا لیکن فتح کا جشن بابر اعظم منائیں گے۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔