کیا محسن نقوی جو چاہیں بن سکتے ہیں؟

وفاق میں اس وقت برسراقتدار جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیئر رہنما رانا ثنا اللہ نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ ’ان (محسن نقوی) کی مہربانی ہے کہ وہ وزیراعظم نہیں بننا چاہتے، انہوں نے وزیر داخلہ پر ہی اکتفا کیا ہوا ہے۔‘

محسن نقوی نے 11 جولائی 2023 کو بطور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا دورے کیا تھا (فائل فوٹو: محسن نقوی/ ایکس)

جنوری 2023 میں پنجاب کے نگران وزیراعلٰی بننے سے قبل بھی محسن نقوی کوئی گمنام شخصیت تو نہیں تھے لیکن اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنے بااثر ہیں کہ جو منصب یا عہدہ چاہیں حاصل کر سکیں۔

خیر اندازے غلط ثابت ہونے اور غلط فہمیاں دور ہونے میں وقت تھوڑا ہی لگتا ہے، محض لگ بھگ ایک سال بعد اب پتہ لگ گیا ہے کہ یہ ان کی مہربانی ہے کہ انہوں نے صرف ملک کے وزیر داخلہ بننے پر اکتفا کیا۔

جب 8 فرروی کے انتخابات ہونا تھے تو بظاہر دور دور تک ایسا کوئی تذکرہ نہیں تھا کہ پنجاب میں نگران حکومت کے خاتمے کے بعد محسن نقوی مرکز میں کابینہ کے ایک اہم اور بااختیار وزیر بن جائیں گے لیکن اب وہ ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں۔

وفاق میں اس وقت برسراقتدار جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیئر رہنما رانا ثنا اللہ نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ ’ان (محسن نقوی) کی مہربانی ہے کہ وہ وزیراعظم نہیں بننا چاہتے، انہوں نے وزیر داخلہ پر ہی اکتفا کیا ہوا ہے۔‘

رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ان لوگوں کو نہ تو چھوٹا سمجھا جائے اور نہ ہی ان کو طیش دلائی جائے اور یہ سمجھا جائے کہ یہ نظام کے لیے کتنے اہم ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب اینکر نے رانا ثنا اللہ سے کہا کہ وزیر داخلہ سے بڑا منصب تو وزیراعظم ہی کا ہوتا ہے تو کیا وہ وزارت عظمٰی کے منصب پر بھی فائز ہو سکتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’بالکل، اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی، وہ جو چاہیں بن سکتے ہیں۔‘

محسن نقوی کے پاس اس وقت ناصرف طاقتور وزارت داخلہ کا قلمدان ہے بلکہ وہ بیک وقت پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین بھی ہیں اور 2 اپریل ہی کو وہ ملک کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن بھی باآسانی منتخب ہو گئے اور وہ بھی آزاد حیثیت میں۔

انہوں نے کسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کی لیکن سینیٹر بننے کے لیے اس وقت اقتدار میں شامل بڑی جماعتوں کی حمایت انہیں حاصل رہی اور انہیں مطلوبہ ووٹ مل گئے۔ تاہم ان اور فیصل واوڈا کے سینٹ میں آنے سے بہت سے تجربہ کار اور سینیئر سیاستدان ایوان بالا سے باہر رہ گئے ہیں۔

پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے پر اور بھی کئی شخصیات طاقتور بن کر ابھری ہیں ان میں سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا بھی شامل ہیں۔ ان دونوں نے آزاد حیثیت میں سینیٹ انتخابات میں حصہ لیا اور ہنسی خوشی انہیں مختلف سیاسی جماعتوں نے ووٹ دے دیے۔

جب حالات ایسے ہوں تو یہ ضروری نہیں لوگوں کو عہدوں کے لیے جدوجہد یا کوشش کرنی پڑے بلکہ منصب خود ایسی شخصیات کی تلاش میں ہوتے ہیں۔

اب دور بدل رہا ہے قابل اور اہل شخصیات کے لیے راستے کھل رہے ہیں اور ضروری نہیں ایسے افراد ایک ہی منصب کی ذمہ داریوں کو بطور احسن نبھا سکیں بلکہ وہ بیک وقت ایک سے زائد ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

پاکستان کو اب ایسے ہی ’ملٹی ٹاکسنگ‘ یعنی ایک ہی وقت میں مختلف امور کو چلانے پر عبور رکھنے والی شخصیات کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ