اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی وزارتی قائمہ کمیٹی برائے سائنسی و تکنیکی تعاون (کامسٹیک) نے دوسرے مرحلے میں فلسطین کے لیے پانچ ہزار مزید فیلوشپس کا اعلان کیا ہے۔
اس ضمن میں منگل کی شام اسلام آباد میں کامسٹیک کے دفتر میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا، جہاں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی، پاکستان میں فلسطین کے سفیر احمد جواد ربعی اور اس وقت پاکستان میں زیر تعلیم فلسطینی طلبا سمیت کئی ممالک کے سفارت کاروں نے شرکت کی۔
کوآرڈینیٹر جنرل کامسٹیک ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’فلسطین پاکستانیوں اور مسلمانوں کے دل کی دھڑکن ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ سات اکتوبر 2023 کے بعد غزہ پر فلسطینی جارحیت کے بعد ’فلسطین کے تعلیمی، ثقافتی، سائنسی اداروں کو حکمت عملی کے تحت تباہ کیا گیا ہے۔‘
ڈاکٹر اقبال چوہدری نے کہا کہ ’ہمارا چیلنج یہ ہے کہ فلسطین کی تعمیر نو اور اس کی ترقی کے لیے جو تکنیکی افرادی قوت چاہیے اسے پاکستان نے انہیں تحفے کے طور دینا ہے۔‘
کامسٹیک فلسطین پروگرام کے پہلے مرحلے میں سائنس و ٹیکنالوجی، صحت اور زراعت کے مختلف شعبوں میں پانچ سع فیلوشپس کا اعلان کیا گیا تھا جن میں سے 95 طلبہ کے مکمل اخراجات کامسٹیک کی طرف سے فراہم کر دیے گئے ہیں، جن میں سے بیشتر طلبہ پاکستان میں زیر تعلیم ہیں۔
فلسطین کے سفیر احمد جواد ربعی نے اس موقع پر پاکستان کی نجی یونیورسٹیوں اور کامسٹیک کی طرف سے فلسطینی طلبہ کے لیے پانچ ہزار فلیوشپس کے اعلان کو خوش آئند قرار دیا۔
پاکستان میں زیر تعلیم فلسطینی طالبہ ولائی مروان ابراہیم الجبور نے بتایا کہ ان کا تعلق غزہ کے علاقے خان یونس سے ہے اور ان کے بقول مشکل وقت میں پاکستانیوں نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میں ان (اپنے خاندان) سے رابطے میں ہوں، میں نے ایک ہی رات میں اپنے خاندان کے 24 افراد کو کھو دیا اور اب بھی میرے خاندان کے 12 افراد چھ ماہ سے خیموں میں رہ رہے ہیں اور انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ فلسطین میں نہ بجلی ہے نہ گیس اور نہ انٹرنیٹ ان کے لیے وہاں رہنا اتنا مشکل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ فلسطین واپس جانا چاہتی ہیں لیکن اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے’فلسطین میں کسی کو اپنی مرضی کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
’یہ میرا خواب ہے کہ میں وہاں جا کر ان کے لیے کچھ کروں وہاں جانا ناممکن ہے۔ مجھے امید ہے کہ میں فلسطین جاؤں گی اور اس بارے میں کچھ کروں گی۔‘
ایک اور طالبہ برا مروان ابراہیم الجبور کا کہنا تھا کہ وہ فلسطین کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہیں۔ ’ فلسطین کی موجودہ صورت حال کی وجہ سے ہم نے اپنے تمام خواب چکنا چور کر دیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ان کے اہل خانہ اس وقت رفح میں ہیں جن سے وہ ٹیلی فون پر رابطہ کرتے ہیں۔