وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مختلف سیکٹروں میں گذشتہ دو ہفتوں کے دوران چھ وارداتیں ہوئی ہیں جن سے مقامی آبادی خصوصاً خواتین میں خوف پیدا ہوا اور سوشل میڈیا پر دن دھاڑے ہونے والی ڈکیتیوں کے چرچے ہونے لگے۔
یہ وارداتیں شہر کے قدرے محفوظ سمجھے جانے والے سیکٹروں جیسے کہ ایف ٹین اور آئی ایٹ میں ہوئیں۔ ایف ٹین میں ایک مسلح ڈاکو نے دن کی روشنی میں گھر میں گھس کر ایک خاندان کو یرغمال بنایا اور قیمتی اشیا لے کر فرار ہوگئے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جب انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد عامر ذوالفقار سے اس بارے میں رابطہ کیا تو انہوں بتایا: ’یہ درست ہے کہ اسلام آباد میں حالیہ دنوں میں چھ وارداتیں ہوئیں لیکن مثبت بات یہ ہے کہ پولیس نے تمام مجرموں کو پکڑلیا ہے اور رقم بھی برآمد کرلی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر جرائم زیادہ ہوتے تو اقوام متحدہ کی جانب سے گذشتہ دنوں اسلام آباد کو کبھی بھی محفوظ شہر کا درجہ نہ دیا جاتا۔‘
وفاقی دارالحکومت میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں سیف سٹی کیمرہ لگانے کا منصوبہ بنایا گیا اور اس مقصد کے لیے چین سے کیمرے منگوائے گئے۔ ذرائع کے مطابق سیف سٹی منصوبے کا آغاز پیپلز پارٹی کی حکومت میں کیا گیا لیکن کیمروں کی کوالٹی اتنی اچھی نہیں کہ وہ چہروں کی شناخت کرسکیں۔
ن لیگ کے دورِ حکومت میں اُس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اس منصوبے کو فعال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت اسلام آباد کی تمام مرکزی شاہراہوں پر 11 سو سے زائد کیمرے نصب کیے گئے تھے لیکن پولیس ذرائع کے مطابق اس وقت 35 فیصد کیمرے خراب ہیں اور صرف 65 فیصد ہی کیمرے کام کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کیمروں کے حوالے سے جب آئی جی پولیس اسلام آباد سے سوال پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’سیف سٹی کیمروں کو پہلے مرحلے پر ٹھیک کیا جائے گا اور اُس کے بعد جدید فوکس والے کیمروں سے تبدیل کرنے کا پروپوزل حکومت کو دیا جائے گا، تاہم پروپوزل میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔‘
صحافی آصف بشیر چوہدری کہتے ہیں کہ ’اسلام آباد میں بڑھتے ہوئے جرائم کا تعلق پولیس کی کارکردگی سے نہیں بلکہ موجودہ حکومت کے نئے قوانین اور اُس سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری سے ہے۔‘
نفسیات کی طالبہ سندس جرائم کو ارد گرد کے ماحول سے جوڑتی ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب معاشرے میں فرسٹریشن زیادہ ہوتی ہے تو اس طرح کے جرائم جنم لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چوری اور ڈکیٹی جیسے جرائم کے پیچھے معاشی ناانصافی بھی ہوتی ہے جو نوجوان نسل کو غلط راہ پر لگا دیتی ہے۔ حکومت کو نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہوں گے۔‘
آئی جی پولیس عامر ذوالفقار نے مزید بتایا کہ پولیس اپنا کام کر رہی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے وضاحت کی کہ ’یہ گھسے پٹے الفاظ نہیں ہیں بلکہ اس کی تازہ مثال حال ہی میں لاپتہ بچی کمشکا کی 48 گھنٹوں میں بازیابی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’وفاقی پولیس چھان بین کے لیے جدید طریقے اور ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہی ہے جس سے مجرموں تک پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جب کوئی واقعہ ہو جاتا ہے تو لوگوں کا پہلا ری ایکشن یہی ہوتا ہے کہ پولیس کیا کر رہی ہے؟ پولیس کوئی بھی واردات ہونے سے پہلے نہیں پہنچ سکتی اور نہ پولیس کو الہام ہو گا کہ واردات ہونے والی ہے لیکن جرائم کے سدباب کے لیے ایک نئی پیٹرولنگ ٹیم بنا دی گئی ہے جو رات کو بھی گشت پر رہے گی اور ہرعلاقے کا متعلقہ ایس پی بھی ڈیوٹی پر موجود ہوگا۔‘
آئی جی پولیس سے جب سوال کیا گیا کہ دیگر جرائم کے ساتھ ساتھ بچوں کے اغوا کے کیسز بھی سامنے آ رہے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ایک روز قبل بنی گالہ سے لاپتہ ہونے والا بچہ بھی لاہور سے بازیاب کروا لیا گیا ہے، جو گھر سے پیسے لے کر داتا دربار کی سیر کو گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’گذشتہ سال کے مقابلے میں وفاقی دارالحکومت میں جرائم میں کمی ہوئی ہے اور تقریباً 80 فیصد اغوا یا لاپتہ ہونے والے بچوں کو بازیاب کرالیا گیا ہے جبکہ مختلف وارداتوں میں ملوث 234 گروہوں کو بھی پکڑا گیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آئی ایٹ میں ہونے والی واردات کا بھی سراغ لگا کر ریکوری کرلی گئی ہے، اس لیے چند واقعات سے عوام خوف زدہ نہ ہوں۔‘
ایک محتاط اندازے کے مطابق سال 13-2012 میں شہرِ اقتدار میں جرائم کی شرح زیادہ تھی اور مارچ 2014 میں ایف ایٹ کچہری میں فائرنگ کے واقعے کے بعد سے اسلام آباد کی سکیورٹی بڑھانے کے لیے پولیس کے ساتھ ساتھ رینجرز کو بھی شہر کی پیٹرولنگ پر تعینات کیا گیا، جس کے بعد جرائم کی شرح میں بتدریج کمی واقع ہوئی۔
جرائم کا سد باب کیسے ہو سکتا ہے؟
اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے دفتر میں ہر چھ ماہ کی رپورٹ آتی ہے جس کے مطابق جرائم کی شرح مسلسل کم ہو رہی ہے۔ ’جہاں پہلے چھ ماہ میں 60 کیسز تھے اب 40 ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی ایک ہائی پروفائل ڈکیٹی ہو جائے یا کسی پوش سیکٹر میں واقعہ ہوجائے تو ساری محنت ضائع ہو جاتی ہے اور سوشل میڈیا پر شور مچ جاتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اعداد و شمار کے مطابق کرائم ریٹ قابو میں ہے اور اس کے سدباب کے لیے ضلعی انتظامیہ نے ’محافظ‘ کے ساتھ ایک معاہدہ سائن کیا ہے ۔ محافظ ایک سمارٹ فون ایپلیکیشن ہے، جس کی مدد سے پولیس اور انتظامیہ کو شکایت درج ہونے پر فوراً جائے وقوع کا پتہ چل جائے گا اور شکایت کنندہ کا شناختی کارڈ نمبر بھی آ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے اس موثر طریقہ کار کی مدد سے جرائم کو قابو کرنے میں خاصی مدد ملے گی۔