پنجاب: ایئر ایمبولینس پر اخراجات اور استعمال کا طریقہ کیا ہوگا؟

صوبائی حکومت کے مطابق تین چھوٹے جہاز اور دو ہیلی کاپٹر پنجاب میں ایمرجنسی ریسکیو کے لیے استعمال کیے جائیں گے جبکہ ریسکیو 1122 اور سول ایوی ایشن عملے کے تعاون سے تربیتی مشقوں کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے گذشتہ دنوں صوبے میں مریضوں کو بڑے ہسپتالوں میں بنا کسی مشکل منتقل کرنے کے لیے ایئر ایمبولینس شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر عملی اقدامات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

اس حوالے سے صوبائی حکومت کے مطابق تین چھوٹے جہاز اور دو ہیلی کاپٹر پنجاب میں ایمرجنسی ریسکیو کے لیے استعمال کیے جائیں گے جبکہ ریسکیو 1122 اور سول ایوی ایشن عملے کے تعاون سے تربیتی مشقوں کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔

عوام کے لیے یہ سہولت مفت فراہم کی جا رہی ہے کیونکہ تمام اخراجات صوبائی حکومت برداشت کرے گی۔

ترجمان پنجاب حکومت عظمیٰ بخاری کے مطابق ’ماضی میں صرف اعلانات ہوتے رہے ہیں مگر وزیر اعلیٰ مریم نواز نے عہدہ سنبھالتے ہی پہلی تقریر میں ایئر ایمبولینس کی سہولت کا اعلان کیا اور ایک ماہ بعد ہی اس منصوبے کو عملی شکل دے دی گئی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’افسوسناک بات یہ ہے کہ اپوزیشن عوامی سہولیات پر بھی پروپیگنڈہ کر رہی ہے۔‘

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن رہنما رانا آفتاب احمد کے مطابق ’ایئر ایمبولینس کی سہولت تو دی جا رہی ہے لیکن ہسپتالوں میں تو ادویات بھی موجود نہیں ہیں۔ ایسی سہولیات ترقی یافتہ ممالک میں ہوتی ہیں۔ ہم تو قرضوں سے ملک چلا رہے ہیں۔‘

دوسری جانب ترجمان ریسکیو 1122 پنجاب فاروق احمد کے بقول ’صوبے میں ایئرایمبولینس ایمرجنسی میں استعمال کے لیے عملے کی تربیت شروع کر دی گئی ہے۔ اس حوالے سے قوائد و ضوابط بنا لیے گئے ہیں جن کے تحت اس سہولت کا شہریوں کو ایمرجنسی سہولت ضرورت کے مطابق فراہم کی جائے گی۔‘

سابق ڈائریکٹر سول ایوی ایشن لاہور ذکاوت حسن کہتے ہیں کہ ’پنجاب میں ائیر ایمبولینس کی سہولت پہلی بار نہیں بلکہ ایدھی ویلفیئر کی جانب سے بھی یہ سہولت دی جاتی رہی ہے۔ سول ایوی ایشن کے تعاون سے یہ سہولت کامیابی سے فراہم کی جا سکتی ہے۔‘

ایئر ایمبولینس سروس پر اخراجات

سرکاری دستاویزات کے مطابق دو چھوٹے جہازوں (سیسنا) پر مشتمل ایئر ایمبولینس کے اخراجات کا تخمینہ 44 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ دو ہیلی کاپٹرز کے اخراجات اس کے علاوہ ہوں گے۔

حکومت پنجاب کی جانب سے اس سروس کے لیے استعمال ہونے والی دو ایئر ایمبولینس کا ٹھیکہ نیلامی کے ذریعے 18 کروڑ روپے سالانہ میں سکائی ونگز نامی کمپنی کو دیا گیا ہے۔

سابق ڈائریکٹر سول ایوی ایشن لاہور ذکاوت حسن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب میں ایئر ایمبولینس کی سہولت کا اعلان خوش آئند ہے۔ کیونکہ ایمرجنسی میں اس طرح کی سہولیات کئی ممالک میں فراہم کی جا رہی ہیں۔‘

تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’یہ کوئی پہلا تجربہ نہیں۔ اس سے قبل ایدھی ویلفیئر کی جانب سے بھی یہ سہولت فراہم کی جاتی رہی ہے، لیکن ان کا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا تھا۔‘

ذکاوت حسن کے بقول ’ایئر ایمبولینس کے جہازوں کی سول ایوی ایشن پارکنگ فیس وصول نہیں کرتا۔ البتہ عملے کی تنخواہیں، جہازوں میں استعمال ہونے والا پیٹرول (ہائی آکٹین) جو چار پانچ سو روپے لیٹر ہوتا ہے اس کے اخراجات ضرور ادا کرنا پڑتے ہیں۔‘

’جہاں تک تعلق ہے دیکھ بھال اور مرمت کے اخراجات وہ متعلقہ ادارے یا حکومت کو ادا کرنا پڑتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس مقصد کے لیے چھوٹے سیسنا جہاز استعمال کیے جاتے ہیں اور اس معاملہ میں یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ ہیلی کاپٹر یا جہاز کو اتارنے کے لیے بھی محفوظ جگہ دستیاب ہونی چاہیے۔ جہاز یا ہیلی کاپٹر چلانے والے بھی مستقل ملازم ہوتے ہیں۔‘

اس بارے میں عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایئر ایمبولینس چھوٹی جگہ پر لینڈ کر سکتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’تین ایئر ایمبولینس اور دو ہیلی کاپٹر ریسکیو کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔ پنجاب حکومت جون کے مہینے سے بلا معاوضہ ایئر ایمبولینس کو آپریشنل کر دے گی۔‘

عظمیٰ بخاری کے مطابق ’ایئر ایمبولینس پنجاب کے تین مقامات پر پارک ہوں گے اور ہسپتالوں میں جہاز اور ہیلی کاپٹر لینڈ کرنے کے لیے جگہ بنائی جائے گی۔‘

ایئر ایمبولینس سروس کا استعمال کس طرح کیا جائے گا؟

ترجمان ایمرجنسی سروسز ریسکیو 1122 پنجاب فاروق احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پنجاب میں ایمرجنسی سروسز کے لیے ایئر ایمبولینسز کی ضرورت تھی۔ موجودہ حکومت نے اس منصوبے کو پہلی بار عملی شکل دے کر تربیتی سیشن بھی شروع کروا دیے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس فضائی سفری ایمرجنسی سہولت کا استعمال عالمی معیار کے مطابق کیا جائے گا۔ ایمرجنسی کے عالمی قوائد کے مطابق کسی بھی نازک حالت کے مریض کو ایک گھنٹے کے اندر بڑے ہسپتال منتقل کیا جانا لازمی ہوتا ہے۔‘

فاروق احمد کے بقول ’کئی اضلاع اور تحصیلوں میں چھوٹے ہسپتال موجود ہیں جہاں مریضوں کو ایک حد تک صحت کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ لہذا حادثات یا آفات میں شدید زخمی ہونے والے مریضوں کو بڑے شہروں کے بڑے ہسپتالوں میں منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس میں کم از کم چار گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اس دوران کئی مریض حالت خراب ہونے پر راستے میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سال 2023 میں 15 سے 40 مریضوں کو حالت زیادہ خراب ہونے پر بھکر، میانوالی اور بہاولنگر کے ضلعی ہسپتالوں سے بڑے ہسپتالوں میں منتقل کرنا پڑا جس میں سفر چار گھنٹے میں طے ہوا۔ اس لیے ایئر ایمبولینس یا ہیلی کاپٹر کی کمی محسوس کی گئی۔‘

فاروق احمد نے کہا کہ ’اس بارے میں متعلقہ دسٹرکٹ ہسپتال (ڈی ایچ کیو) جس میں مریض کو ابتدائی طور پر لایا جاتا ہے وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے مریض کو بڑے ہسپتال منتقل کیا جائے۔ لہذا موجودہ حکومت نے اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کر کے یہ سہولت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

’یہ سہولت شمالی اور جنوبی پنجاب کے دور دراز علاقوں کے لیے دستیاب ہوگی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنا سرکاری ہیلی کاپٹر بھی اس مقصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ ہم یہ سروس حادثات، آفات اور مہلک بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو فوری بڑے ہسپتالوں میں منتقل کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔‘

ترجمان ریسکیو 1122 کے مطابق ’ایک ایئر ایمبولینس میں دو پائلٹ، ایک  مریض، ایک نرس اور ایک مریض کا رشتہ دار سفر کر سکے گا۔ چھوٹے جہاز اتارنے یا ہیلی کاپٹر اترنے کی جگہ کا تعین کرنے کے بعد آپریشن شروع ہوگا۔ چھوٹا جہاز موٹر وے، ہائی وے یا کسی کھلی جگہ اتارا جاسکے گا۔‘

اپوزیشن رہنما رانا آفتاب نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت صرف ان کاموں پر پیسہ خرچ کر رہی ہے جن سے ان کی تشہیر ہو۔ عوامی خدمت کا سچا جذبہ ہو تو پہلے ان کی مالی مشکلات دور کرنے کے لیے اقدامات کرے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جو ہسپتال موجود ہیں ان میں ادویات اور علاج کی سہولیات میں بہتری لائی جائے۔ ایئر ایمبولینس کی سہولت تو مل جائے گی لیکن مریضوں کے ہسپتال پہنچنے پر انہیں علاج اور ادویات کی ضرورت ہوگی وہ دستیاب نہ ہوئیں تو جلد پہنچنے کا کیا فائدہ؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا