تقریباً ہر سال ہی بڑی تعداد میں پاکستانی ایک بہتر زندگی کا خواب لیے اپنے پیاروں کو چھوڑ کر یورپ اور دیگر ممالک کے لیے ایک مشکل غیر قانونی سفر کی کوشش کرتے ہیں۔
کبھی کبھی وہ اس سفر میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں لیکن ہر بار ایسا نہیں ہوتا۔ کبھی کشتی حادثہ تو کبھی کنٹینر میں دم گھٹ جانے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، جن کے ساتھ ہی سفر پر جانے والوں کے رشتہ داروں کی تمام امیدیں بھی دم توڑ جاتی ہیں۔
رواں ماہ بلوچستان کے شہر نوشکی میں پیش آنے والا واقعہ 11 انسانوں کی جان لے گیا۔ گو کہ اس کی ذمہ داری کالعدم تنظیم بی ایل اے نے قبول کی اور اس کا مقدمہ بھی دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج ہو چکا ہے لیکن اس سارے عمل میں چند عناصر ایسے بھی ہیں کہ جن کا کردار اس سارے واقعے کی دُھول میں کہیں چھپ گیا ہے۔
اس واقعے کے بعد کچھ ایسی خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ قتل کیے جانے والوں میں بعض ایسے افراد بھی تھے جو ’غیرقانونی‘ طریقے سے دوسرے ملک میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ قلعہ دیدار سنگھ کے گاؤں نور پور کے رہائشی رانا امان اللہ کے بھائی شاہ زیب بھی انہی میں شامل تھے۔
ایک کچے مکان میں اپنے آٹھ بھائیوں کے ہمراہ رہائش پذیر رانا امان اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا چھوٹا بھائی شاہ زیب عیدالفطر سے دو دن قبل ایران جانے کے لیے بذریعہ بس روانہ ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے بھائی نے بالکل بھی نہیں بتایا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ ’میں صرف اتنا جانتا تھا کہ میرا بھائی مون شاہ نامی ایجنٹ کے ساتھ رابطے میں ہے اور ایک دن اچانک وہ کہنے لگا کہ میں باہر کے ملک جا رہا ہوں میرا ویزا لگ گیا ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے اسے منع بھی کیا لیکن وہ کہنے لگا کہ اس کے کئی دوست اور دیگر عزیز بھی اس پلان میں اس کے ساتھ شامل ہیں اور وہ اکٹھے ہی رہیں گے۔‘
’مجھے صرف اتنا ہی معلوم تھا کہ میرے بھائی کا ایران کا ویزا لگ گیا ہے اور اس نے ایران سے گزر کر عراق یا کسی اور ملک جانا ہے۔‘
ان کے مطابق ’مجھے جب اس بات کا پتہ چلا کہ میرے بھائی نے بذریعہ بس بیرون ملک جانا ہے تو میں نے اسے یہاں تک کہا کہ پیسے تو ہمارے لگ ہی رہے ہیں تھوڑے سے مزید پیسے لگا کر تم بذریعہ جہاز بیرون ملک چلے جاؤ، تو اس پر بھی وہ نہ مانا اور اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ انسانی سمگلر کی باتوں میں آ چکا تھا اور ہماری کوئی بھی بات ماننے یا سننے سے انکاری تھا۔‘
رانا امان اللہ کہتے ہیں کہ ’شاہ زیب سے میرا آخری رابطہ جمعے کی شام ہوا تھا جب وہ تفتان بارڈر کی جانب عازم سفر تھا اور مجھے اپنے لیے دعا کرنے کو کہہ رہا تھا۔‘
’مجھے اس نے آخری بات یہ کہی تھی کہ وہ اب مسیجز کے ذریعے مجھے اپنی صورت حال سے آگاہ رکھے گا، وہ آخری مسیج تو نہ آ سکا لیکن میرے ماموں کے بیٹے کا مجھے فون آیا جس نے خبروں میں یہ سنا تھا کہ نوشکی شہر میں سلیمان چڑھائی کے مقام پر تفتان جانے والی بس کے مسافروں کو اغوا کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں مقتول شاہ زیب کے بھائی امان اللہ کا کہنا تھا کہ ’میں یہ جھوٹ نہیں بولوں گا کہ یہ ڈنکی نہیں تھی۔ ہم نے انسانی سمگلر کو 20 سے 22 لاکھ روپے تک کی رقم دی تھی اور میرا بھائی اور دوسرے سب جانے والے اس سمگلر کی ذمہ داری تھے۔‘
’جس وقت مجھے یہ خبر ملی میں اس وقت بھی سمگلر کے گھر گیا اور اس سے پوچھا تو اس نے تسلی دی کہ یہ سب افواہیں ہیں اور ان پر دیہان مت دو۔‘
گوجرانوالا ہی کے نواحی گاؤں مدوخلیل کے رہائشی واثق بھی ان لوگوں میں شامل تھے جو اس بدقسمت بس میں سوار ہوئے اور شدت پسندوں کی کارروائی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے بھائی عبید اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ واثق میڑک کے امتحان سے فارغ ہوا تھا اور بیرون ملک جانا چاہتا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’منڈی بہاؤالدین سے تعلق رکھنے والا ہمارا ایک عزیز عراق جا رہا تھا۔ اسی نے واثق کو بھی اپنے ساتھ تیار کر لیا۔‘
ویزے کی بابت بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’واثق کے پاس ایران تک کا ویزہ موجود تھا اور وہ بھی اسے کوئٹہ پہنچ کر دیا گیا تھا لیکن اس سے آگے عراق کے ویزے کے متعلق واثق یہی کہتا تھا کہ ایجنٹ کہہ رہا ہے کہ عراق کا ویزا ایران پہنچ کر ملے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنے بھائی کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر واثق کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ لوگوں نے نہ بھیجا تو بھی میں نے چلے جانا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جو مرکزی ایجنٹ تھا وہ ایک ہی تھا مگر ان کی ڈیل اس سے نہیں بلکہ شاہ زیب جو ان کا رشتہ دار تھا اور جو خود بھی اسی بس میں واثق کے ساتھ ایران جا رہا تھا وہ ہی سمگلر کی ایما پر ان سے بات چیت کرتا تھا۔ ہم نے شاہ زیب کو ہی کچھ رقم ایڈوانس دی تھی اور باقی پیسے عراق پہنچ کر دینے تھے۔‘
اس حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اداروں کو چاہیے کہ وہ فعال کردار ادا کریں تاکہ ایجنٹس جو پیسے کی خاطر نوجوانوں کی ذہن سازی کر کے ’غیر قانونی ڈنکیاں لگواتے‘ ہیں اور انہیں موت کے کھیل میں جھونکتے ہیں ان کو پکڑا جا سکے۔
اس سارے معاملے پر جب انڈپینڈنٹ اردو نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے سے جاننا چاہا کہ وہ انسانی سمگلرز کے خلاف کیا کارروائیاں کر رہی ہے اور خصوصاً منڈی بہاؤالدین، گجرات اور گوجرانوالا کی پٹی جہاں سے بڑی تعداد میں لوگ ایجنٹس کے ہتھے چڑھتے ہیں وہاں ایف آئی اے ڈائریکٹوریٹ کی کیا کارکردگی ہے جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے گوجرانوالا زون ون ساجد اکرم بجائے اس کے کہ کچھ بتاتے وہ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے اور اپنی کسی بھی قسم کی کارکردگی سے متعلق بتانے سے گریزاں رہے۔
البتہ پاکستان کی سرکاری خبررساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق ایف آئی اے گوجرانوالہ زون نے سیالکوٹ میں بدھ کو کارروائیاں کرتے ہوئے حوالہ ہنڈی اور انسانی سمگلنگ میں ملوث تین ملزمان کو گرفتارکر لیا۔
ترجمان ایف آئی اے کے مطابق یہ کارروائی وفاقی وزیر داخلہ محسن رضا نقوی کی ہدایات پر کی گئی۔
ملزمان کے قبضے سے حوالہ ہنڈی سے متعلق ریکارڈ برآمد کیا گیا جبکہ ملزم شاہد نواز نے بیرون ملک ملازمت کا جھانسہ دے کر ایک شہری سے دو لاکھ 85 ہزار روپے بٹورے تھے۔ ملزم نے شکایت کنندہ کو ترکی کا جعلی ویزا دیا تھا۔ ملزم سال 2019 سے ایف آئی اے کو مطلوب تھا۔
انسدادِ انسانی سمگلنگ سرکل لاہور نے ادھر بھی انسانی سمگلنگ اور ویزہ فراڈ میں ملوث دو ملزمان گرفتارکرلیے۔
حکام کے مطابق ملزمان کو چھاپہ مار کارروائی میں لیاقت چوک سبزہ زار میں واقع ٹیکنیکل ٹریڈ ٹیسٹ سینٹر سے گرفتار کیا گیا جہاں وہ بغیر لائسنس سادہ لوح شہریوں سے بیرون ملک ملازمت کا جھانسہ دے کر پاسپورٹ وصول کر رہے تھے۔