پاکستان ہاکی فیڈریشن میں تقسیم کے معاملے پر فیڈریشن انٹرنیشنل ہاکی کی ہدایت پر چیئرمین وزیر اعظم یوتھ پروگرام رانا مشہود کی زیر صدارت جمعرات کو اسلام آباد میں اجلاس ہوا جس میں کس دھڑے کو تسلیم کرنا ہے یہ فیصلہ ایف آئی ایچ پر چھوڑنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
اسلام آباد میں جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے دونوں دھڑوں کے عہدیداروں کے شرکت کی۔
وزیر اعظم یوتھ پروگرام کے چیئرمین رانا مشہود کے بقول ’اجلاس میں اتفاق کیا گیا ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے کس دھڑے کو تسلیم کرنا ہے یہ فیصلہ ایف آئی ایچ پر چھوڑ دیا جائے۔‘
اجلاس کے بعد رانا مشہود صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’فیڈریشن میں تقسیم ختم کر کے دستاویزات اور ثبوتوں کی روشنی میں جس کو ایف آئی ایچ تسلیم کرے گی اسے ہم بھی تسلیم کرنے کے پابند ہوں گے۔ لہذا ڈاکٹر شہلا رضا دھڑے کے سیکریٹری جنرل حیدر حسین کو عالمی فورمز سے خط و کتابت کے لیے عارضی طور پر اس عہدے پر برقرار رکھنے پر اتفاق ہوا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تقسیم کے بعد اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں شرکت کے لیے جاری کراچی اور اسلام آباد میں کیمپوں کو بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ اب اسلام آباد میں دوبارہ ٹرائل لینے کے بعد وفاقی دارالحکومت میں ایک ہی کیمپ لگانے پر سب متفق ہوئے ہیں۔‘
ہاکی فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل حیدر حسین کے بقول ’پاکستان ہاکی فیڈریشن کے آئین میں ایف آئی پی کو مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔ اس لیے اجلاس میں طے ہوا ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے غیر جانبدار کمیٹی بنا کر فیڈریشن کے صدر کی نامزدگی ہوگیگ
انہوں نے کہا کہ ’جو فنڈز میں اربوں کا خرد برد کیا گیا اس کی ایف آئی اے تحقیقات کرے گا اور کمیٹی شفاف سکروٹنی بھی کرے گی۔ ہمارے ممبران کی تعداد 103 ہے جن کے ووٹوں سے صدر منتخب کیا جاتا ہے۔‘
سابق سیکرٹری ہاکی فیڈریشن اور ہاکی اولپمیئن آصف باجوہ کے مطابق ’ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے لیکن حکومتی توجہ اور عہدیداروں کی عدم دلچسپی کے باعث پہلے ہی بدحالی کا شکار ہے۔ اب فیدریشن ٹوٹنے سے بالکل ہی تباہ ہوئی ہے۔‘
’دنیا کے دیگر ممالک کے کھلاڑی عالمی مقابلوں کی تیاری کر رہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں یہ طے کیا جا رہا ہے کہ اس کھیل کو فروغ دینے کے لیے بننے والی ہاکی فیڈریشن کو کیسے متحد کیا جائے۔‘
معاملہ تھا کیا؟
پاکستان ہاکی فیڈریشن کچھ عرصہ پہلے دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ ایک حصے کی صدر شہلا رضا اور جنرل سیکریٹری حیدر حسین بنے اور کراچی آفس سے کام شروع کر دیا جبکہ دوسرے دھڑے کے صدر طارق بگٹی اور جنرل سیکریٹری رانا مجاہد بن گئے اور ہاکی فیڈریشن لاہور آفس میں براجمان ہوگئے۔
یوں ایک ہاکی فیڈریشن کراچی اور دوسری لاہور کی بن گئی۔ پی ایچ ایف کراچی کی جانب سے بطور سیکریٹری حیدر حسین نے صدر ایف آئی ایچ کو خط لکھا اور سارا معاملہ ان کے نوٹس میں لایا گیا۔
خط میں کہا گیا تھا کہ ایف آئی ایچ آئی او سی سپورٹس گورننس چارٹر پر عمل کرتے ہوئے ان کی ہاکی فیڈریشن کا ساتھ دے۔
اس کے علاوہ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’آئی او سی، ایف آئی ایچ اور پی ایچ ایف آئین میں متوازی تنظیم کی گنجائش نہیں، ایف آئی ایچ کو اس بارے با رہا مطلع کیا گیا کہ کچھ عناصر متوازی تنظیم سازی میں ملوث ہیں۔‘
حکومت پاکستان کی جانب سے سپورٹس فیڈریشنز کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا لیٹر ریکارڈ پر ہے اور وزارت بین الصوبائی رابطہ نے آئی او سی کو سپورٹس فیڈریشنز کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایف آئی ایچ نے اس خط پر دو دن پہلے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے دونوں دھڑوں کو 25 اپریل تک اپنا مؤقف اور ثبوت کے ساتھ حکومت سے مل کر معاملات حل کرنے کی ہدایت کی تھی، جس پر حکومتی نمائندہ رانا مشہود کی زیر صدارت جمعرات کو اسلام آباد میں دونوں دھڑوں کا اجلاس بلایا گیا تھا۔
فٹبال فیڈریشن کی طرح ہاکی فیدریشن میں عالمی فورمز کی مداخلت
اس سے قبل پاکستان میں فٹبال فیڈریشن میں بھی تقسیم کا تنازعہ کئی سالوں سے چل رہا ہے۔ عہدیداروں میں اتفاق نہ ہونے پر فیڈریشن انٹرینشل فٹبال (فیفا) کی مداخلت پر فٹبال فیڈریشن کی بجائے ایک کمیٹی تشکیل دے کر معاملات چلائے گئے۔ انہی حالات کی وجہ سے فٹبال کے کھیل میں کافی مشکلات کا سامنا رہا تھا۔
اب پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کی فیڈریشن بھی پہلی بار دو حصوں میں تقسیم ہوئی اور اس معاملے پر بھی فیڈریشن انٹرنیشنل ہاکی کو مداخلت کرنا پڑی۔
حیدر حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’قوائد و ضوابط کے مطابق ہماری سپریم باڈی کانگریس نے شہلا رضا کو صدر ہاکی فیڈریشن اور مجھے جنرل سیکریٹری نامزد کیا، لیکن وزیر اعظم نے طارق بگٹی کو صدر جبکہ رانا مجاہد کو جنرل سیکریٹری نامزد کر دیا۔‘
’اگرچہ آئین کے آرٹیکل 15 کا سہارا لے کر وہ یہ اختیار ضرور استعمال کر سکتے ہیں مگر دیگر آرٹیکلز کے مطابق ہماری کانگریس اتھارٹی کو تسلیم کرنا بھی لازمی ہے۔ جن کے مطابق ہم عہدیدار نامزد ہوئے عالمی فورمز بھی ہمیں تسلیم کرتے ہیں۔
’طارق بگٹی کو انتخاب کرانے کے لیے نگران سربراہ مقرر کیا۔ وہ خود ہی وزیر اعظم کے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے مستقل ہوگئے۔ یہ عمل ہاکی فیڈریشن کے رولز کے بھی خلاف ہے اور قانونی طور پر بھی اس کا جواز نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے حکومت کو بھی درخواست کی کہ سپریم باڈی کانگریس کا فیصلہ مانا جائے اور علیحدہ سے عہدیداروں کی نامزدگی نہ کی جائے۔ عدالت نے بھی ہماری درخواست پر سٹے دے رکھا ہے۔ ہم نے ہی ایف آئی ایچ کو بھی خط لکھا تاکہ قانون کے مطابق معاملہ حل کیا جائے اور ہاکی کو نقصان سے بچایا جائے۔‘
سابق اولمپیئن آصف باجوہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان ہاکی کی بدحالی کی کئی وجوہات ہیں۔ نہ تو اس کھیل پر حکومتی توجہ رہی نہ اس طرح فنڈز جاری کیے گئے جس طرح کرکٹ کے لیے جاری ہوتے ہیں۔ ایونٹ کے انعقاد میں بھی بڑے پیمانے پر کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔‘
’دوسری وجہ عہدیداروں میں ہاکی کو فروغ دینے کی بجائے عہدے حاصل کرنے کی خواہش ہے۔ وہ بھی نوجوان کھلاڑیوں کی سپورٹ کرنے کی بجائے اختیارات انجوائے کرنے پر ہی یقین رکھتے ہیں۔ اس کھیل کی نرسری جو سکول کالجز اور کلبوں کی سطح پر ہوتی تھی ختم ہوتی جارہی ہے۔‘
آصف باجوہ نے کہا کہ ’جس طرح کرکٹ میں کھلاڑیوں کو مستقبل نظر آتا ہے اس طرح ہاکی میں دکھائی نہیں دیتا۔ اس لیے وہ ہاکی کھیل کر وقت ضائع کرنے کی بجائے دیگر کھیلوں یا کاروبار کو آگے بڑھنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ہاکی میں جس طرح ہم کبھی ناقابل تسخیر تھے اب اسی طرح عالمی سطح پر ریکنگ میں بھی دکھائی نہیں دیتے۔‘
’ہاکی کی تباہی کی سب سے بڑی وجہ اس میں پیسہ اور مسقتبل نہ ہونا ہے اس کو کمرشل کیے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔‘