وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی جانب سے دو روز قبل اعلان کیا گیا کہ لاہور کے 50 مقامات پر فری وائی فائی فراہم کردیا گیا ہے۔
ان مقامات میں شہر کی معروف ترین کاروباری شاہراہ ایم ایم عالم روڈ، گلبرگ مین مارکیٹ اور صدیق ٹریڈ سینٹر سمیت کئی تعلیمی ادارے اور ہسپتال شامل ہیں۔
یہ سہولت لوگوں کے لیے کس طرح مفید ہے؟ وائی فائی دستیاب ہے بھی یا نہیں؟ اور اگر دستیاب ہے تو کیا اس کی سپیڈ قابل استعمال ہے؟ ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے ان مقامات میں سے چند کا جائزہ لیا تاکہ دیکھا جا سکے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے اعلان پر کتنا عمل ہو رہا ہے؟
ایم ایم عالم روڈ پر ’CM Maryam Nawaz Free WIFI‘ کے نام سے وائی فائی موجود تھا لیکن موبائل سے بار بار کنیکٹ کرنے کی کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح گلبرگ مین مارکیٹ میں بھی اس نام سے وائی فائی ظاہر ہو رہا تھا لیکن یہاں یا تو کنیکٹ ہی نہیں ہو رہا تھا۔ اگر ہو بھی رہا تھا تو اس سے انٹرنیٹ استعمال کرنا مشکل تھا۔
جب صدیق ٹریڈ سینٹر جاکر موبائل سے یہ فائی فائی تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو وہاں اس نام سے وائی فائی ظاہر نہیں ہوا۔
شہریوں سے اس بارے میں بات کی گئی تو بیشتر شہریوں کو اس سہولت کے بارے میں معلوم نہیں تھا، تاہم جنہیں معلوم تھا، ان کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کی دی گئی اس سہولت سے فائدہ اتھانے کے لیے جب وائی فائی کنیکٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کنیکٹ نہیں ہوتا۔ اگر ہو بھی جائے تو اس سے کوئی موبائل ایپ یا براؤزر میں کوئی ویب سائٹ نہیں کھلتی۔
شہریوں کے مطابق: ’حکومت کی جانب سے عوام کو دی گئی یہ سہولت خوش آئند ہے مگر اسے بہتر اور اپ گریڈ کیا جانا چاہیے کیونکہ سگنل مضبوط اور انٹرنیٹ سپیڈ تیز ہوگی تو تب ہی اس کے استعمال کرنے کا فائدہ ہوگا۔‘
شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عوامی مقامات پر رش کے باعث جتنے زیادہ لوگ وائی فائی ڈیٹا استعمال کرتے ہیں، سپیڈ اتنی ہی کم ہوتی ہے۔ اگر سگنل بھی مضبوط نہ ہوں تو پھر تو ویسے ہی یہ سہولت استعمال کرنا مشکل ہے۔
حکومت پنجاب کی جانب سے یہ منصوبہ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (پی آئی ٹی بی) کے ذریعے مکمل کروایا جا رہا ہے۔
پنجاب میں 2016 میں شہباز شریف کے دورِ حکومت میں بھی لاہور میں فری فائی فائی کی سہولت کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی اس سہولت کے قابل استعمال ہونے پر ایسے ہی سوالات اٹھتے رہے تھے۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت آتے ہی 2019 میں یہ سہولت بند کر دی گئی تھی، جس کی وضاحت یہ دی گئی تھی کہ صوبے بھر میں بھاری سالانہ سبسڈی کے باعث پنجاب وائی فائی پروجیکٹ بند کر دیا گیا ہے۔
اس وقت اس منصوبے کا انتظام پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ (پی ٹی سی ایل) کر رہی تھی لیکن اب پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ اس کی نگرانی کرتا ہے، لیکن نتائج اب بھی وہی ہیں جو پہلے تھے۔
اس حوالے سے موقف جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ سے رابطہ کیا، تاہم اس رپورٹ کی تیاری تک ان کا موقف موصول نہ ہوسکا۔
پنجاب حکومت کی جانب سے اس بار فراہم کردہ وائی فائی سہولت میں رجسٹر ہونے یا تصدیقی میسج کے بعد یہ سہولت استعمال کرنے کی بجائے براہ راست بغیر پاس ورڈ یہ سہولت استعمال کرنے کا بندوبست ضررو کیا گیا ہے، مگر اس کی استعداد کار میں اضافے کے بغیر اسے قابل استعمال بنانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔