نفرت فاتح عالم ہوتی ہے استاد! محبت تو بندے کو ستو پلا کے سلانے والی گیم ہوتی ہے۔
زندگی بھر میں نے یہی سنا کہ دنیا محبت کے لیے بنائی گئی ہے، محبت کائنات میں ہر چیز کو فتح کر سکتی ہے، محبت سے کام لیا جائے تو ہر بگڑا ہوا کام سدھارا جا سکتا ہے، لیکن اب یہ سب سمجھ نہیں آتا۔
نفرت اس قدر ضروری چیز ہے کہ دنیا میں ہر قوم کو زندہ و تابندہ رہنے کے لیے ایک عدد دشمن کی ضرورت ہوتی ہے۔ عام آدمی کو مقابلے پر اکسانے اور زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے ایک یا بہت سارے دشمن درکار ہوتے ہیں، دشمن، جن سے ٹکر لے کے انہیں آگے بڑھنا ہوتا ہے۔
اس فانی دنیا کا ہر امتحان جیت کے لیے ہوتا ہے، فتح کے لیے کوئی بھی حربہ آزمایا جاتا ہے، اسی لیے شاید لائق بچے دوسروں کو نقل تک نہیں کرواتے، تو جیتنا آخر ہوا سے ہے کیا؟ یہاں بھی ایک عدد دشمن چاہیے ہوتا ہے۔
کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے دشمن؟ نفرت سے! وہ کون سی دنیا ہو گی جس میں چاروں طرف سارے مل کے جھوم رہے ہوں اور کوئی لاگ بازی ہی نہ ہو، شریکا نہ ہو، دوڑ نہ ہو، مارا ماری نہ ہو، جنگ نہ ہو؟
ان سب چیزوں کے لیے نفرت چاہیے ہوتی ہے، اس کے بغیر آپ بتائیں کیا ہو سکتا ہے؟
نفرت ایسی پاور فل چیز ہے کہ آپ سے بڑے بڑے کام کروا لیتی ہے، غصے میں آدمی معمول سے کہیں زیادہ وزن اٹھا لیتا ہے، محنت کر لیتا ہے، نقصان والے وہ کام بھی کر لیتا ہے جو عام حالات میں اس کے لیے سوچنے ہی مشکل ہوں ۔۔۔ تو عام حالات میں پھر کیا ہو سکتا ہے؟
یعنی عام حالات سمجھ لیں کہ محبت والے ہیں، کہیں سے لتا کی آواز آ رہی ہے، بوندا باندی ہو رئی ہے، ایسے نیچے تک بادل آئے ہوئے ہیں، مٹی سے خوشبو اٹھنا بس شروع ہوئی ہے، دور تک یہ سبزہ ہی سبزہ ہے، پھولوں کی مہک ناک کیا پورے جسم میں آ رہی ہے۔
ایسے میں کوئی فوجی بھی ہو گا تو تھوڑی دیر لیٹ کے پکوڑے کھائے گا، بندوق وغیرہ کون اٹھائے؟
اب انہی حالات میں بس جنگی ترانے شامل کر لیں اور آسمان پہ جہازوں کی گڑگڑاہٹ ۔۔۔ سارا مزہ بھنگ ہو گیا؟ لیکن بندوق اب اٹھے گی، وہ اٹھے گی تو ہار جیت کا فیصلہ ہو گا اور اس سب کے لیے آف کورس نفرت چاہیے ہو گی۔
یعنی ایک انسان کو اپنے ملک سے محبت کرنے کے لیے بھی اچھی خاصی مقدار میں نفرت چاہیے ہوتی ہے، دشمن ملک کے خلاف، وہ نہیں ہو گی تو محبت کا پتہ کیسے چلے گا؟
اب تک ہم ایسے ہی دو نمبر دنیا کی بات کر رہے تھے، اصل دنیا پر آتے ہیں، جس میں آپ رہتے ہیں، جہاں میری مستقل رہائش ہے، انٹرنیٹ کی دنیا، یہاں بھی وہی کام چل رہا ہے۔
اس کو بھی بنانے والوں نے سوچا ہو گا کہ ہماری ایجاد سے دنیا کتنی خوبصورت ہو جائے گی، لوگوں کو ایک دوسرے سے بات کرنے میں آسانی ہو گی، گھر بیٹھے دوسرے ملک گھومیں گے، خبریں ملیں گی، نئی نئی معلومات ہوں گی۔
سوشل میڈیا پہ ایک دوسرے کو دیکھ کے خوش ہوں گے، امن، محبت، بھائی چارہ بڑھے گا ۔۔۔ یہ پڑا ہوا ہے چارہ بھی اور بھائی بھی اور محبت ہماری وہ طلسماتی فاتح عالم والی بھی۔
ادھر یار لوگ کاٹ کھانے کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں، یوں سمجھ لیں ’کاز‘ بعد میں نکلتی ہے نعرے پہلے تیار ہوتے ہیں، بلکہ نفرت کا مقصد ہی نعروں کی گونج سے طلوع ہوتا ہے۔ اس میں بھی کدھر ہے محبت، پورا کاروبار نفرت کا ہے کہ نہیں؟
سارے لوگ اگر ’واہ واہ، سبحان اللہ‘ کمنٹس میں لکھ دیں اور آگے بڑھ جائیں تو اُن کو جواب کون دے گا؟ بحث کیسے ہو گی؟ دلیلوں والے خنجر کسے لہولہان کریں گے اور یہ سب نہیں ہو گا تو وہ چیز وائرل کیسے ہو گی؟
پوسٹ کا فارمولہ یہی ہے کہ جتنی زیادہ انگیجمنٹ ہو گی، اتنی تیزی سے اسے دوسرے لوگوں کی وال پر دکھایا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محبت میرے خیال میں کوئی نشے ٹائپ کا جذبہ ہے جو اپنے صارف کو چوبیس گھنٹے لسی پینے کے بعد والی خماری میں مبتلا رکھتا ہے، کام دھام کا نئیں رہتا پھر وہ، جسے نفرت ہی نہیں وہ کس سے آگے بڑھے گا اور وہ کیا کام کرے گا؟
نفرت ۔۔۔ ایسا لفظ ہے کہ جس سے تنفر ٹپکتا ہے، اسے کوئی ہلکا سا نام دینا چاہیے تاکہ یہ مہذب لگے اور اسے کرنا آسان محسوس ہو، ضمیر پہ کوئی بوجھ بھی نہ ہو۔
جیسے انگریزی میں ’ٹرولنگ‘ یا ’ڈفرنس آف اوپنین‘ کے نام پہ آپ بڑے سے بڑا کام کر سکتے ہیں اور وہ ’ہیٹ سپیچ‘ کے کھاتے میں بھی نہیں جاتا۔
شاید یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’میں آپ سے عدم محبت کا اظہار کرتا ہوں اور اب اس جذبے کے تحت میں آپ کی جڑ مارنے والا ہوں۔‘ کیسا رہے گا؟
کُل ملا کے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی بنیادیں نفرت پہ قائم ہیں، وہی فاتح عالم ہے، وہ نہیں ہو گی تو کون کس کو فتح کرے گا؟
اور کوئی ہار جیت ہی نہیں ہو گی تو دنیا پھر کہاں رہی، وہ تو جنت ہو گی۔ مرنے سے پہلے کس کو جنت میں جانے کا شوق ہے؟
باقی بس میرے حصے کی محبتوں سے میں تھک گیا ہوں بھائی، آپ اپنا اپنا دیکھ لیں!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔