اسرائیل کی لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو رفح خالی کرنے کی تنبیہ

پیر کو اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے رفح کے امدادی کیمپوں میں فلسطینیوں کے لیے پمفلٹ گرائے، جہاں فوج حماس کے خلاف ’طاقت کے ساتھ کارروائی‘ کے لیے تیار ہے۔

اسرائیلی فوج نے اقوام متحدہ کی جانب سے بڑھتی ہوئی انسانی تباہی اور ناگزیر ’خونریزی‘ کے انتباہ کے باوجود مشرقی رفح پر طویل عرصے سے متوقع زمینی حملے سے قبل ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو علاقے سے انخلا کے لیے  کہا ہے۔

پیر کو آئی ڈی ایف (اسرائیلی ڈیفنس فورسز) کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے رفح کے امدادی کیمپوں میں پناہ لینے والے فلسطینیوں کے لیے پمفلٹ گرانا شروع کر دیا ہے، جہاں فوج حماس کے خلاف ’طاقت کے ساتھ کارروائی‘ کرنے کے لیے تیار ہے۔

لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ المواصی میں اسرائیل کی طرف سے قرار دیے گئے ’انسانی زون‘ کی طرف چلے جائیں کیوں کہ فوج ’محدود دائرے میں آپریشن‘ کے لیے تیار ہے۔ تاہم اسرائیل نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ رفح پر حملہ کب شروع ہو گا۔

رفح میں موجود فلسطینی خاندانوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ انخلا کے حکم کے بعد خوف و ہراس کی کیفیت ہے اور المواصی ’رہنے کے قابل جگہ نہیں ہے‘ اور نہ ہی وہ محفوظ ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سیاسی حلقوں کی منظوری کے مطابق آئی ڈی ایف حماس کے زیر اہتمام علاقے کی آبادی سے کہہ رہی ہیں کہ وہ رفح کے مشرقی علاقوں سے عارضی طور پر توسیع شدہ انسانی علاقے کی طرف انخلا کریں۔‘

بیان میں کہا ہے کہ آئی ڈی ایف ’عربی زبان میں اعلانات، تحریری پیغامات، فون کالز اور ذرائع ابلاغ پر نشریات کے ذریعے فلسطینی شہریوں کے ساتھ رابطہ کر رہی ہیں۔

فوج نے سرخ اور نیلے رنگ کے فلائرز گرانے شروع کر دیے ہیں جن میں رفح کیمپ، برازیل کیمپ اور الشبورہ کے پڑوس میں پناہ لینے والے فلسطینی شہریوں کو فوری طور پر علاقے سے جانے کے لیے خبردار کیا گیا ہے۔

ان فلائرز پر عربی زبان میں پیغام درج ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’ان علاقوں میں رہنے آپ کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’آئی ڈی ایف اس علاقے میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف طاقت کے ساتھ کارروائی کرنے والی ہیں جہاں اس وقت آپ رہ رہے ہیں، جیسا کہ آئی ڈی ایف اب تک کر چکی ہیں۔‘

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو غزہ سے اسرائیلی افواج کے انخلا کے حماس کے مطالبے پر رضامندی ظاہر کرنے سے انکار کرتے ہوئے فائر بندی مذاکرات سے بظاہر الگ ہو گئے ہیں جو منگل تک جاری رہیں گے۔

رفح میں موجود متعدد بار نقل مکانی کرنے والے فلسطینی خاندانوں کا کہنا ہے کہ لوگ خوف زدہ ہیں کیوں کہ ان کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ شمالی غزہ سے دو بار نقل مکانی کر کے اپنے خاندان کے ساتھ خیمے میں رہنے والے نضال حمدونہ نے کہا کہ لوگوں کے لیے المواصی میں رہنا ممکن نہیں ہے۔

 یہ علاقہ ساحلی زمین کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا جسے اسرائیلی فوج نے ’انسانی زون‘ قرار دیا ہے، زیادہ تر ریت کے ٹیلوں پر مشتمل ہے اور نقل مکانی کرنے والے افراد سے بھرا ہوا ہے۔

حمدونہ نے مایوسی کے عالم میں دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’المواصی ایسی جگہ نہیں جہاں رہا جا سکے۔ جنگ سے قبل یہ محض ساحلی زمین تھی جہاں کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے۔ ہم نے کسی دوسرے مقام پر منتقل ہونے کی کوشش پر تبادلہ خیال کر چکے ہیں لیکن ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں رہا جا سکے اور وہ محفوظ ہو۔ پانی نہ ہونے کی وجہ سے سب تباہ ہے۔‘

’ہر کوئی یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ ہم کہاں جائیں؟ المواصی زیادہ بڑا نہیں اور یہاں پہلے ہی بڑی تعداد میں لوگ موجود ہیں۔ وہاں پہلے ہی لاکھوں لوگ رہ رہے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہزاروں خیمے لگے ہوئے ہیں۔ یہ مسئلہ بھی ہے کہ لوگ وہاں کیسے پہنچیں؟

نضال نے مزید کہا کہ ’ہر کوئی فکرمند اور خوفزدہ ہے۔‘

مشرقی رفح میں رات بھر ہونے والے فضائی حملوں کے نتیجے میں مشکلات میں اضافہ ہوا۔ ان حملوں میں متعدد افراد کی جان گئی اور کرم ابو سالم جانے والی زمینی گزرگاہ کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا جس کی وجہ سے رفح میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں راتوں رات دگنی ہو گئیں۔ صحت کے فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فائرنگ سے کم از کم 19 افراد جان سے گئے۔ اقوام متحدہ کے عہدے داروں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ رفح جہاں 14 لاکھ افراد نے پناہ لے رکھی ہے، میں اسرائیلی فوج کے آپریشن ’خون سے نہلا دینے‘ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ رفح میں زیادہ تر وہ لوگ مقیم ہیں جو پہلے ہی نقل مکانی کر چکے ہیں اور ان میں سے نصف بچے ہیں۔

اقوام متحدہ کے فلسطینی پناہ گزینوں کے ادارے یو این آر ڈبلیو اے سے تعلق رکھنے والی تمارا الرفاعی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ اس حملے کے ممکنہ اثرات ’تباہ کن‘ ہوں گے۔

انہوں نے کہا: ’کسی بھی طرح کی ہنگامی منصوبہ بندی اس بے پناہ بے چینی کو دور نہیں کر سکتی جتنی آج رفح میں زیادہ تر لوگ محسوس کر رہے ہیں، جب کہ ناگزیر حملے کی خبریں عام ہیں۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ یو این آر ڈبلیو اے نے سرحدی قصبے میں رہنے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی کارروائیوں کو جاری رکھنے کا عہد کر رکھا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’سطح، وسعت اور پیمانہ سامنے رکھتے ہوئے اس طرح کے کسی فوجی آپریشن کے ممکنہ نتیجہ تباہ کن ہو گا۔غزہ کے مکین گذشتہ سات ماہ میں پہلے ہی پوری پٹی میں دیکھ چکے ہیں۔‘

’انسانی بنیادوں پر فائر بندی ہی مزید اموات اور تباہی کو روکنے کا واحد راستہ ہے۔‘

یو این آر ڈبلیو اے کے لیے بھی کام کرنے والی لوئس واٹرج نے رفح  سے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ چند دن سے فائر بندی کی بہت امیدی تھی لیکن اب سلامتی کے بارے میں ’شدید خوف اور تشویش‘ پیدا ہو چکی ہے کیوں کہ اسرائیل کا رفح پر حملہ ناگزیر دکھائی دے رہا ہے۔

انہوں نے غزہ کے سرحدی قصبے سے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’میں نے یہاں جس سے بھی بات کی اس نے مجھے بتایا کہ آگے جو کچھ ہونے والا ہے وہ لوگ اس سے کتنے خوفزدہ ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہر کوئی پوچھ رہا ہے کہ ہم کہاں جائیں اور انہیں کیا ملے گا؟ یہاں تک کہ رفح میں بھی کئی مہینوں سے انسانی بنیادوں پر کام کے باوجود بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں کیوں کہ اتنی چھوٹی سی جگہ پر بہت سارے لوگ موجود مقیم ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ رفح میں شدید گرمی کی حالیہ لہر کے نتیجے میں ایسے لوگ جان سے گئے جنہوں نے پلاسٹک سے بنے خیموں میں پناہ لے رکھی تھی جو کوئی پناہ فراہم نہیں کرتے۔ ’دوبارہ نقل مکانی کا بڑھتا ہوا خطرہ فلسطینیوں شدید ترین مشکلات سے دو چار کر دے گا۔ اس سے پہلے سے ہی زندہ رہنے کے لیے حالات خراب ہو رہے ہیں اور لاکھوں لوگوں کو مزید خطرہ لاحق ہو جائے گا۔‘

اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گلانت نے پیر کو کہا کہ حماس کی جانب سے فائر بندی اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے ثالثی قبول کرنے سے انکار کی وجہ سے رفح میں اسرائیلی فوجی کارروائی کی ضرورت ہے۔

 نتن یاہو رفح پر حملہ کرنے کے اپنے منصوبوں پر ڈٹے ہوئے ہیں حالاں کہ متنبہ کیا گیا ہے کہ اس سے وہاں پناہ لینے والے شہریوں کی بڑے پیمانے پر جانیں جائیں گی۔ عالمی رہنما اور امدادی ادارے اسرائیل سے حملہ ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

رفح، حماس کے زیر کنٹرول علاقے کے جنوب میں غزہ کی پٹی اور مصر کے درمیان سرحد پر واقع علاقہ ہے اور شمال میں اسرائیلی حملے کے بعد یہاں پناہ لینے والے فلسطینیوں کی تعداد 10 لاکھ تک پہنچ چکی ہے جو بہت زیادہ ہے۔

اسرائیلی فوج رفح کو حماس کا آخری گڑھ قرار دیتی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ اس کے پانچ سے آٹھ ہزار جنگجو اور سینئر رہنما شہر میں چھپے ہوئے ہیں۔

اتوار کو حماس کے عسکریت پسندوں نے رفح میں کرم ابو سالم کراسنگ سے  راکٹ حملہ کر کے تین اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔

آئی ڈی ایف نے دعویٰ کیا ہے کہ جنوبی غزہ میں رفح کراسنگ کے ایک حصے سے 10 میزائل داغے گئے جو امداد کی ترسیل کے لیے استعمال ہونے والی  اہم گزرگاہ سے تقریبا 3.6 کلومیٹر (2.2 میل) دور ہے۔ حماس کے مسلح ونگ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا