فلسطینی تنظیم حماس نے کہا کہ اس کا وفد ہفتے کو غزہ میں فائر بندی مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے قاہرہ جا رہا ہے، یہ مذاکرات ہفتے کو مصر کے شہر قاہرہ میں ہو رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فلسطینی گروپ حماس نے اعلان کیا ہے کہ اس کا وفد ہفتے کے روز قاہرہ واپس آئے گا تاکہ مصر اور قطر کی ثالثی میں طویل عرصے سے جاری مذاکرات دوبارہ شروع کیے جائیں جو قیدیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیل کی جارحیت کو عارضی طور پر روک دیں گے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے شہر رفح پر ممکنہ اسرائیلی حملے سے ’خون کی ہولی‘ کھیلی جا سکتی ہے۔
حماس کی جانب سے دیرپا فائر بندی کے مطالبے اور اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کی جانب سے رفح میں گروپ کے باقی ماندہ ارکان کو کچلنے کی بار بار دھمکیوں پر کئی مہینوں سے جاری مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔
بلنکن نے جمعے کے روز طویل عرصے سے خطرے والے شہر رفح حملے پر واشنگٹن کے اعتراضات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے وہاں پناہ دینے والے شہریوں کے تحفظ کے لیے کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اس طرح کے منصوبے کی عدم موجودگی میں، ہم رفح میں کسی بڑے فوجی آپریشن کی حمایت نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے جو نقصان پہنچے گا وہ قابل قبول نہیں ہے۔‘
انسانی ہمدردی کے لیے کام کرنے والے گروپوں اور اقوام متحدہ نے بھی اسرائیل سے التجا کی ہے کہ وہ رفح پر حملہ روک دے، جہاں 12 لاکھ افراد پناہ کی تلاش میں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادھانوم گیبریئس نے جمعے کو خبردار کیا ہے کہ اس شہر میں دراندازی کے سنگین اثرات ہو سکتے ہیں۔
ٹیڈروس نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر کہا کہ ’ڈبلیو ایچ او کو اس بات پر گہری تشویش ہے کہ رفح، غزہ میں مکمل فوجی آپریشن خون کی ہولی کا باعث بن سکتا ہے، اور پہلے سے ٹوٹے ہوئے صحت کے نظام کو مزید کمزور کر سکتا ہے۔‘
اقوام متحدہ کی صحت کی ایجنسی نے اعلان کیا کہ وہ اس کے باوجود ہنگامی منصوبے بنا رہی ہے، صحت کی سہولیات کو بحال کر رہی ہے اور سامان کی پہلے سے تیاری کر رہی ہے۔
ادھر خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر سے غزہ پر جاری اسرائیلی جارحیت میں غزہ میں کم از کم 34 ہزار 622 افراد جان سے جا چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں شہریوں کی اموات پر عالمی سطح پر تنقید میں اضافہ ہوا ہے اور بائیڈن انتظامیہ پر بھی دباؤ بڑھ گیا ہے۔