اُن دِنوں ہم بارہ تیرہ برس کے چھوکرے تھے، گاؤں میں رہتے تھے۔ شہر گاؤں سے یہی بس آٹھ کلو میٹر تھا۔ اسلم ڈوگر عرف ماکھی میرا دوست بہت جی دار تھا، مجھ سے عمر میں دو سال چھوٹا تھا مگر تیز بہت تھا۔
سائیکلیں چلانے کا شوق تب غریب گھروں کے لونڈوں کو بہت ہوتا تھا اور سائیکل کرائے پر ایک گھنٹے کے ایک روپے کے حساب سے مل جاتی تھی۔
دو تین گھنٹے کے لیے پکڑ لیتے اور شہر چل نکلتے۔ سائیکل چلاتے ہوئے دیپالپور چوک سے سیدھا پُل پار کرنے کی بجائے طوائف محلے یعنی ہیرا منڈی میں آتے اور دو چار گلیوں کا چکر کاٹتے۔
یہاں کا مین بازار بہت کھلا تھا۔ نیم کے درختوں کے سائے اونچے بہت تھے۔ بازار میں چھاؤں گھنی تھی۔ منڈی کی عورتیں اپنی چارپائیاں نکال کر بازار میں بیٹھی ہوتیں، تب یہاں ٹریفک بالکل نہ ہوتی تھی۔ البتہ اکا دکا ریڑھی اور پھیری والے گزرتے تھے۔
لوگوں کے پاس زیادہ سے زیادہ سائیکل کی سواری ہوتی، اکثریت پیدل ہی چلتی تھی یا پھر تانگے پر ہوتی اور تانگہ اِس بازار میں کیا لینے آتا۔
ہم پہلے اِس مین بازار سے گزرتے ہوئے سائیکل سے اُتر جاتے جیسے کوئی محترم جگہ سے نکلنے کے لیے یا مسجد کے احترام میں نمازی جوتے اتارتے ہیں، ہم ہیرا منڈی کے احترام میں سائیکل پکڑے پیدل چلنا شروع کر دیتے۔
بازار میں بیٹھی ہوئی عورتیں ہمیں نہ تو کوئی اشارہ کرتیں، نہ جملہ کستیں۔ شاید اُنھیں معلوم تھا اِن کی جیبوں میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے۔
ہم طوائفوں کی رونقیں دیکھ کر محلے سے نکلتے پھر سوار ہو جاتے، پھاٹک نمبر دو سے ہوتے ہوئے سبزہ زار کے کنارے، سرور سوڈا چوک سے ایک ایک سوڈے کی بوتل پیتے۔
یہ بوتل تب آٹھ آنے کی آتی تھی۔ لوکل پانی تھا اور بہت عمدہ۔ ہماری نظر میں سوڈے کا مطلب تب یہی بوتل ہوتی تھی۔
تھوڑی دیر بعد سرور سوڈا چوک کو پیچھے چھوڑ کر ہارنیاں والا روڈ پر آتے، پانچ روپے کا ایک کلوجاپانی پھل خریدتے،اُسے کھاتے ہوئے شہر کی گلیاں کاچھتے اور اُسی رستے شام تک گاؤں آ جاتے۔
رستے میں کسی نہ کسی اپنے سے چھوٹے لڑکے یا کمزور آدمی کے بیچ سائیکل مار دیتے، جب وہ ہماری طرف گھورتا تو نیچے اُتر کر اُسے دو چار دھولیں جما دیا کرتے۔ یہ ہمارا معمول تھا۔
طوائف محلے میں ہم کرتے کراتے کچھ نہیں تھے، نہ ہمارے پاس اِس عیاشی کی گنجائش تھی، لیکن محلے میں شغل ہم خوب دیکھتے۔
اِدھر اُدھر کے راہ گیروں کے بیچ سائیکل کا پہیہ مار کر پھر اُنھیں دھولیں جما کر ہمارے حوصلے کافی بڑھ چکے تھے۔
ایک دن ہوا یہ کہ ہم طوائف محلے سے گزر رہے تھے، ایک آدمی بڑے ڈیل ڈول کا، جسے ہم روزانہ محلے کے چوک میں بیٹھا دیکھتے تھے، اور اُسے دلال سمجھ کر تحقیر کی نظر ڈالتے ہوئے جاتے تھے۔
وہ اچانک ایک گلی سےنکل کر ہماری سائیکل کے آگے آگیا اور سائیکل اُس میں جا لگی۔ ہم دونوں نیچے گر گئے جب اُٹھے تو اُس نے کہا، ’کیا اندھے ہو، یہ محلے کی گلیاں ہیں یا ایئرپورٹ؟ سائیکل دیکھ کر نہیں چلائی جاتی؟‘
ہم نے اگرچہ اُس کے ڈیل ڈول کی مناسبت سے سائیکل جان بوجھ کر نہیں ماری تھی مگرسابقہ دلیری کے سبب ہمارا بھی خون جوش مار گیا، پھر کہیں یہ بھی سُن رکھا تھا کنجروں کی غیرت ویرت نہیں ہوتی۔
ہم نے اُس کے بھی گریبان میں ہاتھ دے دیا۔ اُس اللہ کے بندے نے اور تو ہمیں کچھ نہیں کہا، دونوں کی گردنیں، ایک کی دائیں ہاتھ سے دوسرے کی بائیں ہاتھ سے پکڑ کر زمین سے ڈیڑھ فٹ اُونچا اُٹھا لیا۔
اب اُس سے لڑنا تو کیا تھا، ہمارے پاؤں ہی زمین پر نہیں تھے۔ فقط پھانسی کی طرح جھول رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اِس پینگ کو ایک منٹ گزر گیا، جب چھوڑا تو دھپ سے زمین پر آ گرے۔ ہماری ساری اکڑ ہوا ہو گئی۔ اِس کے بعد اُس نے ہم دونوں کو کان سے پکڑا اور ہیرا منڈی کے بڑے چوک میں لے آیا۔
یہاں ایک چھوٹا سا امام باڑہ بھی بنا ہوا تھا۔ قریب ہی ایک پیپل کا درخت تھا۔ اُس کے نیچے ایک ٹوٹی پھوٹی چارپائی پڑی تھی۔ ہمیں اُس پر بٹھا دیا اور سائیکل ہماری اپنے قبضے میں کر لی اور بولا، ’اگر یہاں سے ذرا بھی ہلے تو ٹانگیں توڑ دوں گا۔ سالو، تمھیں روزانہ یہاں دیکھتا ہوں تماشے کرتے گزرتے ہو، اب تم یہیں ہمارے نوکر بن کے رہو گے۔‘
اس کے بعد اُس نے بازار میں بیٹھی ہوئی تمام عورتوں کو مخاطب کیا، ’یہ لونڈے دونوں آپ کے خدمت گار ہیں، پان سگریٹ، پانی یا کسی بھی قسم کی کوئی ضرورت ہو تو اِنھی سے منگوایا کرو، آج سے اِسی محلے کی چاکری کریں گے۔‘
اُس کے اِس اعلان سے ہمارے اوسان جاتے رہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کیا کریں، کوئی فون وون ہوتا نہیں تھا کہ گھر والوں کو خبر کرتے۔
ہم اُس کی منتیں کرنے لگے اور روہانسے سے منہ بنا کر رونا دھونا شروع کر دیا اور کہا، ’اب چھوڑ دو آئندہ یہاں سے نہیں گزریں گے۔‘
وہ بولا، ’بیٹا گزرنے کا کیامطلب؟ اب تم یہیں رہو گے۔ یہ سب جتنے محلے میں رہتے ہیں، ایسے ہی اِدھر اُدھر سے آئے ہیں، یہ کوئی ایک دوسرے کے رشتے دار نہیں ہیں، مگر جب یہاں آئے تو پھر یہیں بس گئے ہیں۔ پہلے پہل اِنھیں بھی یہاں بسنا اور رہنا بُرا اور عجیب لگتا تھا پھر اِن کا دل لگ گیا اور اب یہ خود یہاں سے نہیں جاتے۔ تم بھی دو چار روز یہاں رُکو گے تو دل لگ جائے گا۔ اِن عورتوں میں سے کسی نہ کسی سے تمھاری شادی کر دیں گے۔ پھر یہ تمھیں کما کر کھلائیں گی اور تم اِن کی خدمت تواضع کرنا اور بس موج ہی موج۔‘
اُس کی یہ باتیں سُن کر ہمارے پاؤں تلے سے زمین نکل ہی گئی اور دل دہلنے لگا کہ یہ شخص تو سچ مچ میں سنجیدہ ہو گیا ہے۔
مَیں نے چار پائی سے اُٹھنے کی کوشش کی تو وہ ایک دم بپھر گیا اور میری گردن کو سختی سے پکڑ کر جھٹکے سے وہیں بٹھا دیا۔ بولا، ’اب اٹھے تو یہ گردن ہی توڑ دوں گا!‘
ماکھی سر نیچے کیے رونے لگا اور مَیں بازار میں بیٹھی عورتوں کی طرف بٹر بٹر دیکھنے لگا کہ شاید کوئی اللہ کی بندی ہماری جان چھڑا دے مگر وہ قہقہے لگا کر ہم پر ہنس رہی تھیں۔
ایک کالی سیاہ طوائف آگے بڑھی اور میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی، ’شادھے مَیں تو اِس سے شادی کروں گی، یہ چٹا گورا منڈا مجھے اچھا لگے گا۔ بچے گورے گورے پیدا ہوں گے۔‘
شادھے نے کہا، ’بس ٹھیک ہے کل ہی ہم تیرا اِس سے نکاح پڑھ دیں گے۔‘
اب میری حالت کچھ نہ پوچھیے، پسینے پر پسینہ آ رہا تھا حالانکہ سردی کے دن تھے۔
اس عمل کو ایک گھنٹہ گزر گیا۔ محلے والے ہمارا تماشا دیکھ رہے تھے، وہاں کے لڑکے ہنس رہے تھے اور تالیاں بجاتے تھے۔ اتنے میں ایک عورت آگی بڑھی اور بولی، ’وے کاکا تیرا نام کیا ہے؟‘
مَیں نے کہا، ’علی اکبر۔‘
وہ میرا نام سُن کر ایک دم جھٹکے سے پیچھے ہٹی، پھر بولی، ’مولا کا مانی ہے؟‘
مَیں نے چوک والے امام باڑے کی طرف اشارہ کر کے کہا، ’جی ہاں مجھے اِس امام باڑے کی قسم میں مولا کا ماننے والا ہوں۔‘
اب وہ طوائف آگے بڑھی اور شادھے سے بولی، ’چھوڑ دے شادھے، اِنھیں چھوڑ دے، پاکاں دے مانی نیں (یعنی پاکوں کو ماننے والے ہیں) اور بچارے بچے ہیں آگے غلطی نہیں کریں گے۔ اپنے کو شریف زادے سمجھتے ہیں۔ اِن کی شرافت پامال نہ کر۔‘
تب اُس نے ہم پر رحم کی نظر کی اور بولا، ’جاؤ اب اگر یہاں کا رُخ کیا تو نہیں چھوڑوں گا۔‘
ہم نے اپنی سائیکل اٹھائی اور گاؤں آ گئے۔ اُس گلی دوبارہ نہیں گھسے، نہ اپنے سے طاقت ور کو آج تک دھول جمائی۔
ایک بار پھر یوں ہوا کہ پانچ یا چھ سال بعد جب میں اوکاڑہ کے مرکزی امام بارگاہ ایوانِ حسین میں باقاعدگی سے جمعہ پڑھنے لگا اور مجلس ماتم کرنے لگا تو میری اُسی شادھے سے دوبارہ ملاقات ہو گئی۔
میں نے دیکھا، وہ ہر وقت اور ہر حال میں عزاداری میں مشغول رہتا تھا چاہے دن محرم کے ہوں یا سال کے کوئی اور دن ہی کیوں نہ ہوں اور تب وہ میرا دوست بن گیا، پھر ہم اُس واقعے کو یاد کر کے ہنستے تھے۔ دو تین سال کی بات ہے، وہ فوت ہو چکا ہے۔ عجب آزاد مرد تھا۔