انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد یہاں پہلے عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں جس میں انڈیا کی حکومتی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) خود تو براہ راست حصہ نہیں لے رہی تاہم کشمیر کی روایتی سیاسی جماعتیں ان میں حصہ ضرور لے رہی ہیں۔
کشمیر میں ہونے والے یہ انتخابات تین مراحل میں ہوں گے جس کا آغاز 13 مئی کو ہو گیا ہے۔
خطے میں 55 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز کو اپنے نمائندے چننے کا حق حاصل ہے۔
2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے ضامن آئینی آرٹیکل کو منسوخ کرنے کے بعد خطے میں نئے سرے سے حلقہ بندیاں کی گئی ہیں۔
کشمیر کی روایتی علاقائی جماعتیں جن میں جموں کشمیر نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سرِ فہرست ہیں، ریاست کی خصوصی درجے کی منسوخی کو غیر پارلیمانی اور غیر آئینی قرار دے رہی ہیں۔
ان جماعتوں کو مرکز میں مودی حکومت کے خلاف بنے انڈیا اتحاد کی سر پرستی حاصل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری طرف کشمیر میں اگست 2019 کے بعد وجود میں آئی نئی تنظیمیں، جن میں جموں کشمیر اپنی پارٹی اور ڈیموکریٹک پراگریسیو آزاد پارٹی قابل ذکر ہیں جو فلاح و بہبود وغیرہ کی بنیاد پر انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں۔
جموں کشمیر پیپلز کانفرنس ویسے تو پرانی تنظیم ہے مگر انتخابات میں نئی پارٹیوں کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ مرکز کی حکمران جماعت بی جے پی نے کشمیر سے کسی بھی امیدوار کو اپنے ٹکٹ پر کھڑا نہیں کیا۔
اپنے اس اقدام کی وضاحت کرتے ہوئے بی جے پی کے ترجمان الطاف ٹھاکر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کشمیر سے امید وار کو نہ چننا ہماری ملک گیر انتخابی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ ہم ان ڈی اے اتحاد کے تحت کئی جگہ پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ کشمیر میں بھی ہم خیال پارٹیوں کو ہماری سر پرستی حاصل رہے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’خاندانی راج پر مبنی پارٹیاں چاہے وہ کانگریس ہو، نیشنل کانفرنس ہو یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، ان کو دور رکھنے کے لیے، دیگر سیاسی پارٹیوں کی ہم ایک حکمتِ عملی کے تحت سرپرستی کریں گے۔‘
تاہم خطے کی سیاسی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار صدیق واحد بی جے پی کی اس حکمت عملی پر کچھ اور ہی رائے رکھتے ہیں۔
صدیق واحد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو انٹرویو میں بتایا کہ ’میرے خیال میں بی جے پی ایک سادہ سی وجہ سے اپنی امیدوار نہیں کھڑے کر رہی۔ وہ سادہ وجہ یہ ہے کہ انہیں ممکنہ شرمندگی سے بچنا ہے کیوں کہ وہ ہار جائیں گے۔
’اس سے ان کی پارٹی کا مقصد یہ ہو گا کہ وہ کوشش کریں گے کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ ساز باز کر لیں جن کا موقف ان کے پارٹی موقف اور سوچ سے قریب تر ہو۔‘
جموں کشمیر نیشنل کانفرنس نے سرینگر پارلیمانی حلقہ سے آغا سید روح اللہ مہدی کو اپنا امیدوار چنا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’یہ انخابات اس لیے اہم ہیں کیوں کہ ہمارے جمہوری اور قانونی تشخص کو حتم کر نے کے بعد یہ پہلے انتخابات ہیں۔
’یہ ہمیں موقع فراہم کر رہے ہیں کہ اپنا موقف انڈیا کی پارلیمنٹ اور عوام کو بتا سکیں کہ پانچ اگست 2019 کو لیا گیا فیصلہ کشمیر کی عوام کو منظور نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جن اصولوں پر ہم نے ملک (انڈٰیا) کے ساتھ الحاق کیا تھا وہ سب ٹوٹ گئے ہیں۔‘
آرٹیکل 370 کے بیانیہ پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان الطاف ٹھاکر کا کہنا تھا ’یہ فیصلے مرکز میں لیے جاتے ہیں۔ جب 370 منسوخ ہوا تب بھی جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کے تین رکنِ پارلیمان موجود تھے۔ یہ تب کچھ نہیں کر پائے، اب کیا کریں گے؟‘
انڈیپنڈنٹ اردو نے چند ایک شہریوں سے بھی بات کی۔
سری نگر کے ایک نوجوان ووٹر عارف اخون نے انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’یہ جو ہمارے تشخص اور پہچان پر وار ہو رہے ہیں ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم ایسے امید وار کو پارلیمنٹ میں بھیجیں جو اس پر آواز اٹھائے۔‘
ایک اور شہری حیا جاوید نے کہا کہ ’جب حالات خراب ہوئے تو نشینل کانفرنس اور پی ڈی پی رہنماؤں کو نظر بند رکھا گیا۔ ان حالات کو دیکھ کر شاید وہ سمجھ گئے ہوں گے کہ لوگوں کی ضرورت کیا ہے۔ اور اگر وہ اقتدار میں آئے تو لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھیں گے۔‘
حریت کانفرنس اور اس سے منسلک سیاسی رہنما ہمیشہ سے کشمیر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کا بائیکاٹ کرتے آئے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ کسی بھی قد آور حریت لیڈر نے کھل کر بائیکاٹ کی اپیل نہیں کی۔
میر واعظ عمر فاروق نے دی ہندو اخبار کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’انڈین حکومت نے یکطرفہ تبدیلیوں سے مسئلہ کشمیر کو پیچیدہ بنا دیا ہے اور اب الیکشن بائیکاٹ کی کال دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘