نیب کیس میں عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہونے کی اجازت

نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومت کی اپیلوں پر منگل کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مرکزی درخواست گزار عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کی اجازت دے دی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر (سہیل اختر/انڈپینڈنٹ اردو)

نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومت کی اپیلوں پر منگل کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مرکزی درخواست گزار عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کی اجازت دیتے ہوئے نیب سے اخراجات اور ریکوری کی تفصیلات طلب کر لیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے ان اپیلوں پر سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل تھے۔

منگل کو سماعت کے آغاز میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کا خط عدالت میں پیش کیا گیا کہ وہ اس مقدمے میں پیش ہونا چاہتے ہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ عمران خان چاہیں تو آئندہ سماعت پر وڈیو لنک کے ذریعے دلائل دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’یہ بڑی عجیب صورت حال ہے کہ عمران خان جو اس مقدمے میں درخواست گزار تھے اور اب اپیل میں ریسپانڈنٹ ہیں، ان کی یہاں پر نمائندگی نہیں۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس مقدمے میں ’درخواست گزار عمران خان ذاتی حیثیت میں پیش ہونا چاہتے ہیں تو ان کو یہاں پیش کیا جانا چاہیے، وہ اس مقدمے میں ایک فریق ہیں، ہم ان کو پیش ہونے کے حق سے کیسے روک سکتے ہیں۔ یہ نیب کا معاملہ ہے اور ذاتی حیثیت میں پیش ہونا ان کا حق ہے۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت اپیل صرف متاثرہ فریق کر سکتا ہے، وفاقی حکومت نیب ترامیم کالعدم قرار ہونے سے کیسے متاثرہ ہے؟ عدالت متاثرہ فریق کی تشریح کر چکی ہے کہ حکومت متاثرہ فریق نہیں ہوسکتی۔‘

وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ’وفاقی حکومت ترامیم کے خلاف درخواستوں میں فریق تھی۔‘

اس موقعے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’جس کے خلاف بھی فیصلہ ہو اسے اپیل کا حق ہوتا ہے۔‘ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’کسٹمز ایکٹ کیس میں عدالت قرار دے چکی کہ کوئی محکمہ متاثرہ فریق نہیں ہوسکتا۔‘

مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’کسٹمز کے کیس میں اپیل ایک افسر نے دائر کی تھی، کیا وفاق کو کوئی حق نہیں کہ اپنے بنائے ہوئے قانون کا دفاع کر سکے؟ نیب ترامیم سے بانی پی ٹی آئی کو کوئی ذاتی نقصان نہیں ہوا تھا۔‘  

چیف جسٹس نے وکیل مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’مناسب ہوگا آپ اپنے بنیادی نکات ہمیں لکھوا دیں، بنیادی نکات عدالتی حکم کے ذریعے عمران خان تک پہنچ جائیں گے تاکہ وہ جواب دے سکیں کیونکہ اس وقت بانی پی ٹی آئی آپ کے دلائل نہیں سن رہے۔‘ 

ساتھ ہی چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا ہم عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کو پیش ہونے کا کہہ سکتے ہیں؟ کیا یہ ان کا آپشن ہو گا یا ہم پیش ہونے کا کہہ سکتے ہیں۔‘

وکیل مخدوم علی خان نے جواباً کہا کہ ’خواجہ حارث کو عدالتی معاون بھی مقرر کیا جا سکتا ہے،‘ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالتی معاون غیر جانبدار ہوتا ہے۔ خواجہ حارث اس کیس میں فریق رہ چکے، ہم خواجہ حارث کو وکیل مقرر کیوں نہ کر دیں، بطوروکیل وہ عمران خان کے دلائل کے ساتھ اپنے دلائل بھی دے دیں، ہم خواجہ حارث کے لیے فیس بھی مقرر کر سکتے ہیں۔‘

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے حکم نامہ لکھواتے ہوئے کہا تھا کہ ’نیب ترامیم کیس کے فیصلے کو معطل نہیں کریں گے، صرف احتساب عدالتوں کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکیں گے۔‘

سماعت کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیب سے اخراجات اور ریکوری کی تفصیلات طلب کر لیں۔

سپریم کورٹ نے خواجہ حارث کو بھی نوٹس جاری کیا اور اٹارنی جنرل کو عمران خان کے لیے آئندہ سماعت پر ویڈیو لنک انتظام کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 16 مئی کو دن ساڑھے 11 بجے تک کے لیے ملتوی کر دی۔

گذشتہ برس 31 اکتوبر کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے نیب ترامیم فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کرتے ہوئے نیب عدالتوں کو زیرسماعت مقدمات کے حتمی فیصلے سے روک دیا تھا۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے چار نومبر کو جاری تحریری حکم نامے میں کہا کہ ’عمران خان نیب ترامیم میں مرکزی درخواست گزار ہیں، اس لیے حکم نامے کی نقل انہیں بھی جیل میں پہنچائی جائے۔‘

عدالت نے اس کیس میں عمران خان سمیت تمام فریقوں کو نوٹس جاری کر رکھے ہیں جبکہ معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کیا گیا ہے۔

عدالت نے صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کیے ہیں۔

سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد تک اس سماعت ملتوی کر دی تھی۔

نیب ترامیم کیس کا فیصلہ کیا تھا؟

نیب ترامیم کیس کا فیصلہ گذشتہ برس 15 ستمبر کو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے قبل جاری کیا تھا، جس میں سپریم کورٹ نے بے نامی کی تعریف، آمدن سے زائد اثاثوں اور بار ثبوت استغاثہ پر منتقل کرنے کی نیب ترامیم کالعدم قرار دے دی تھیں۔

اکثریتی فیصلے میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں۔

جبکہ عدالت نے 50 کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بھی بحال کر دیے اور انہیں احتساب عدالت میں بھیجنے کا حکم دے دیا۔ نیب کو سات دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں بھیجنے کا حکم جاری کردیا۔

یہ فیصلہ تین رکنی بینچ نے سنایا تھا۔ چیف جسٹس اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اکثریتی فیصلہ دیا جبکہ تیسرے جج جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

نیب ترامیم کا فیصلہ سپریم کورٹ میں کب چیلنج ہوا؟

گذشتہ برس17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی، جس میں نیب ترامیم کے خلاف فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔

اپیل میں فیڈریشن، نیب اور چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بنایا گیا تھا جبکہ 15 اکتوبر کو درخواست گزار زبیر احمد صدیقی نے بھی پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تحت نیب ترامیم فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس میں نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔

نیب ترامیم کی مرکزی درخواست

بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے سال 2022 میں اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت سابق حکومت کی متعارف کردہ نیب ترامیم کو چیلنج کیا گیا تھا، جس کی سماعت سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے کی تھی۔

پی ڈی ایم حکومت نے نیب میں کیا ترامیم کی تھیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیب کے قانون میں 27 ترامیم سے متعلق بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مئی 2022 میں منظور کیا گیا تھا، تاہم سابق صدر عارف علوی نے اس بل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت نے جون 2022 میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس کی منظوری دی تھی۔

نیب ترمیمی بل 2022 کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ سمجھا جائے گا۔

نیب ترمیمی بل 2022 کے تحت نیب 50 کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کرسکے گا۔

نیب ترمیمی بل کے تحت احتساب عدالت کے ججوں کی تقرری سے متعلق صدر کا اختیار بھی واپس لے کر وفاقی حکومت کو دے دیا گیا تھا جبکہ پراسیکیوٹر جنرل نیب کی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع کی جا سکتی تھی۔

نیب قانون کے سیکشن 16 میں بھی ترمیم کی گئی تھی، جس کے تحت جہاں جرم کا اتکاب ہوگا، اسی علاقے کی احتساب عدالت میں مقدمہ چل سکے گا۔

بل میں سیکشن 19 ای میں بھی ترمیم کی گئی تھی، جس کے تحت نیب کو ہائی کورٹ کی مدد سے نگرانی کی اجازت دینے کا اختیار واپس لے لیا گیا۔ قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا اور ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا تھا۔

نیب ترمیمی بل کے تحت ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے دیگر کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جا سکے گی، جبکہ ملزم کو اس کے خلاف الزامات سے آگاہ کیا جائے گا تاکہ وہ عدالت میں اپنا دفاع کر سکیں۔

نیب آرڈیننس میں یہ بھی ترمیم کی گئی تھی کہ نیب کسی بھی ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے، تاہم بعد ازاں اس میں مزید ترمیم کرتے ہوئے اس مدت کو 30 دن تک بڑھا دیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان