مظفرآباد: جب 16 سال سے زیادہ عمر کا کوئی شخص گھر میں نہ رکا

احتجاج کے دوران میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کو نہ صرف راستہ دیا جا رہا تھا بلکہ ان کا بھرپور استقبال بھی کیا جا رہا تھا۔ جگہ جگہ رکاوٹوں کی وجہ سے دیر ضرور ہوئی لیکن میڈیا کو دیکھتے ہی لوگ رکاوٹیں ہٹانے کو دوڑ پڑتے۔

گیارہ مئی سے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج شروع ہوا اور اس دوران پوری ریاست میں مظاہرین انتظامیہ پر حاوی دکھائی دیے۔

اس احتجاج کی کوریج کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم 13 مئی کی صبح پانچ بجے روانہ ہوئی اور حالات کی کشیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے راولپنڈی کے علاقے کلر سیداں والے راستے کا انتخاب کیا۔

راولپنڈی ڈویژن سے جب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہوئے تو وہاں حالات معمول پر دکھائی دیے۔

کھوئے رٹہ اور چک سواری کے علاقوں میں بازار بھی کھلے دکھائی دیے اور ٹراسپورٹ بھی سڑکوں پر موجود تھی لیکن جب کوٹلی کی طرف روانہ ہوئے تو وہاں جگہ جگہ سڑکوں پر پتھر اور مٹی کے ڈھیر لگا کر راستے بند ملے۔ یہ رکاوٹیں وہاں کے مقامی لوگ ہٹانے میں مصروف تھے۔

اس کے بعد جیسے ہی تتہ پانی کے علاقے میں پہنچے تو صورت حال مکمل طور پر تبدیل تھی۔

دکانیں بند تھیں اور جگہ جگہ مظاہرین نے ٹولیوں کی شکل میں سڑکیں پتھر اور درخت پھینک کر آمدو رفت کے لیے بند کر رکھیں تھیں۔ لوکل ٹرانسپوٹ مکمل طور پر بند تھی اور ذاتی گاڑی والوں کو بھی مشکل کا سامنا تھا۔

تتہ پانی کے بازار میں مظاہرین نے دھرنا دے رکھا تھا اور حکومت کے خلاف نعرہ بازی ہو رہی تھی۔

یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ احتجاج کے دوران میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کو نہ صرف راستہ دیا جا رہا تھا بلکہ ان کا بھرپور استقبال بھی کیا جا رہا تھا۔ جگہ جگہ رکاوٹوں کی وجہ سے دیر ضرور ہوئی لیکن میڈیا کو دیکھتے ہی لوگ رکاوٹیں ہٹانے کو دوڑ پڑتے۔

نو گھنٹے کے سفر کے بعد جب میں اور میرے ساتھی فہد عزیز راولاکوٹ پہنچے تو محسوس ہوا ایک الگ دنیا میں آ گئے ہیں یعنی جیسے کہ کورونا کا لاک ڈاون ہو۔

مکمل شٹر ڈاون ہڑتال، سنسان سڑکیں اور پورے شہر میں چند لوگ۔

نہ انٹرنیٹ اور موبائل سنگنلز، نہ کوئی گاڑی۔ مقامی لوگوں سے بات ہوئی تو ان کا بھی کہنا تھا کہ ’ایسی ہڑتال، ایسا احتجاج ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔‘

ہم نے اس دوران کم ہی کسی جگہ پر سکیورٹی اہلکار دیکھے ہر طرف مظاہرین ہی دکھائی دے رہے تھے۔ ان مظاہرین میں ہر طبقے اور ہر عمر کے لوگ موجود تھے۔ جن میں طلبا، تاجر اور مزدور شامل تھے۔

ایک شخص کو یہ بھی کہتے سنا کہ ’ہم نے اپنے گھروں میں 16 سال سے اوپر کا کوئی بندہ نہیں چھوڑا سب کو باہر لے کر آئے ہیں۔‘

لوگوں سے جب حالات کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم رینجرز کو مختلف مقامات پر پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔‘ جبکہ کچھ لوگوں نے شکوہ کیا کہ ’ہم پر شدید شیلنگ کی گئی۔‘ 

اسی طرح مظفرآباد کی جانب بڑھتے ہوئے ملحقہ علاقے میں سکیورٹی ادارے کی ’گاڑی جلانے‘ کی خبریں بھی موصوصل ہوئیں۔

راولاکوٹ سے دیر کوٹ اور وہاں سے جب مظفر آباد کی طرف نکلے تو شام کے وقت قطار در قطار لوگ ڈنڈے اٹھائے مظفر آباد کی طرف روانہ تھے۔ کوئی موٹر سائیکل پر تھا تو کوئی گاڑی پر جبکہ ایک بڑی تعداد پیدل ہی جا رہی تھی۔

جگہ جگہ ٹولیوں کی شکل میں لوگ موجود تھے جو جذباتی دیکھائی دے رہے تھے اور نعرہ بازی میں مصروف تھے۔ یہی لوگ ہر نئے آنے والے قافلے کو خوش آمدید کہہ رہے تھے اور ہم بھی اس قافلے کے پیچھے پیچھے وہاں پہنچے۔

محسوس ہو رہا تھا کہ حالات شاید پھر کشیدہ ہونے لگے ہیں کیوں اس وقت خبریں آ رہی تھیں کہ کئی مقامات پر سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ مظاہرین کی جھڑپیں ہوئیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن یہ تمام قافلے مظفر آباد کی مرکزی عیدگاہ پر جمع ہو رہے تھے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ مطالبات منظور ہونے کی خبر کے بعد نئے لائحہ عمل کے اعلان کا انتظار کر رہے تھے۔

رات بارہ بج گئے لیکن جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا نہ کوئی اعلان ہوا اور نہ کوئی فیصلہ۔ البتہ یہ اعلانات ضرورت تھے کھانے کا انتظام ہے اور سب کو ملے گا۔ بظاہر کسی کے چہرے پر جلدی نہیں تھی کہ اعلان ہو اور وہ چل پڑیں۔

یہ سب ہو رہا تھا لیکن ہم رپورٹ نہیں کر پا رہے تھے کیونکہ نہ صرف موبائل انٹرنیٹ بلکہ براڈ بینڈ انٹرنیٹ بھی بند تھا۔ ایسے میں ہم سنگلز کے لیے ایسے ترس رہے تھے جیسے پیاسا پانی کو ترسے۔

اور ویسے بھی پانی پر ہی گزارا کر رہے تھے کیوں کہ ہڑتال ہونے کے باعث کہیں کھانے کو کچھ نہیں مل رہا تھا۔

مظاہرین نے عیدگاہ کے احاطے اور وہاں قریب انتظامیہ کی جانب سے بنائی گئی ایک جگہ پر رات گزاری۔ اللہ اللہ کرکے صبح ایکشن کمیٹی نے ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کیا تو حالات معمول پر آنا شروع ہوگئے۔ زیادہ طور لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے دیا گیا ریلیف وقتی نہیں ہونا چاہیے۔ مقامی کاروباری افراد ہڑتال سے پریشان ضرور تھی لیکن باقی سب کی رائے تھی کہ وہ سب اس ہڑتال پر خوش ہیں۔

اس سارے معاملے میں دوسرے علاقے سے آئے طلبا سب سے زیادہ متاثر ہوئے جو کہہ رہے تھے کہ ہم محصور ہو گئے ہیں کیوں کہ نہ انٹرنیٹ ہے اور نہ ہی ٹرانسپورٹ۔ انہیں کھانے کا بھی مسئلہ درپیش تھا لیکن اب ہڑتال ختم ہونے کے بعد انہیں بھی ریلیف مل گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی