بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع شوپیان کے دور دراز گاؤں سیپدن کے مکین محمد اشرف سیبوں کے باغیچے میں دوا پاشی میں مصروف ہیں۔
چند گز کے فاصلے پر ایک بڑی گاڑی میں بیٹھے پی ڈی پی کے سیاسی کارکن، اشرف کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا کے ووٹ دینے پر مائل کرنا چاہتے ہیں، ان کے چہرے پر ملال اور غصہ عیاں ہے۔ دونوں ہاتھ ہلا کر وہ انہیں وہاں سے چلے جانے کا اشارہ کر رہے ہیں۔
10 سال پہلے اشرف نے پارلیمانی اور ریاستی انتخابات میں محبوبہ مفتی کی پارٹی پی ڈی پی کو نہ صرف ووٹ دیا بلکہ آزادی پسندوں کے بائیکاٹ کی ہدایات کے باوجود اپنے گاؤں کو ووٹ ڈالنے پر مائل کر دیا تھا۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے:
اشرف نے مجھے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ’میں نے بی جے پی کو دور رکھنے کے لیے پی ڈی پی کو ووٹ ڈالا تھا مگر پی ڈی پی نے بی جے پی سے گٹھ جوڑ کر کے اس ریاست کو نیست و نابود کر دیا۔ اس سے اچھا تھا کہ میں نے ووٹ ڈالنے کا بائیکاٹ کیا ہوتا۔‘
بیشتر عوامی حلقوں کا یہ غصہ پی ڈی پی کے خلاف ہی نہیں بلکہ نیشنل کانفرنس کے بارے میں ہے۔ اکثر لوگوں نے مجھے بتایا کہ سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ بی جے پی کی سربراہی والی حکومت میں وزیر رہے ہیں اور آج وہ ہم سے بی جے پی کے خلاف ووٹ مانگ رہے ہیں۔
تو کیا لوگ بی جے پی کو ووٹ ڈال رہے ہیں، جس نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اس کے دو ٹکڑے کر دیے اور اب خطے میں نارملسی قائم کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے؟
بالکل نہیں، نیشنل کانفرنس کے رؤف بٹ کے مطابق: ’بی جے پی کو جواب دینے کے لیے کشمیر میں بی جے پی انتخابی میدان سے ہی غائب ہے۔‘
شاید بی جے پی کو اس حقیقت کا بخوبی احساس ہوا ہے کہ کشمیر میں ان کا کنول کھلنے والا نہیں ہے، اسی لیے پارٹی نے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا، البتہ پس پردہ چند سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی حمایت کرنے کا بیڑا ضرور اٹھایا ہے۔
وزیر داخلہ امیت شاہ نے جموں میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس کے علاوہ وہ ہر پارٹی امیدوار کی حمایت کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ اشارہ سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد، پیپلز کانفرنس اور اپنی پارٹی کی جانب واضح اشارہ تھا۔
عام تاثر ہے کہ کشمیر کی تین پارلیمانی نشستوں پر اس بار بیشتر آزاد امیدواروں کو بھی ووٹ کو تقسیم کرنے کے لیے جان بوجھ کر میدان میں لایا اور اچھی خاصی رقم سے نوازا گیا ہے، بعض امیدواروں نے اس الزام کو مسترد کر دیا۔
توقع تھی کہ بی جے پی نے وادی میں جس حکمت عملی سے زمینی سطح پر اپنا نیٹ ورک قائم کر کے ملک بھر میں یہ تاثر دیا کہ اس نے کشمیر اور لداخ کو فتح کر کے انڈیا میں ضم کر دیا ہے، اس کی بدولت وہ یہاں سے کم از کم دو سیٹیں اور لداخ کی ایک سیٹ حاصل کرے گی۔
پھر پہاڑی برادری کا دل جیتنے کے لیے 10 فیصد ریزرویشن اور ریاستی اسمبلی میں درجہ فہرست ذاتوں کے لیے نو نشستیں مخصوص رکھیں، جس کا ثمر بی جے پی کو ووٹوں کے ذریعے ملنے والا تھا۔ یاد رہے کہ ریزرویشن کے بعد درجنوں پہاڑی اور پسماندہ قبیلوں سے وابستہ سیاست دانوں نے بی جے پی میں شرکت کی ہے۔
اتنی تگ و دو کے باوجود بی جے پی نے کشمیر میں اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا اور لداخ میں اندرونی خودمختاری کی مضبوط تحریک شروع ہونے کے بعد مقبول رہنما کو چھوڑ کر ایک نامعلوم کارکن کو امیدوار بنایا۔
ملکی سطح پر انتخابی مہم میں بی جے پی نے آرٹیکل 370 کی منسوخی، تین طلاق اور رام مندر کی تعمیر کو اپنے اہم کارناموں میں گنوایا ہے مگر کشمیر کو فتح کرنے کے دعوے کے بعد انتخابی میدان سے فرار پارٹی کی شکست تصور کی جا رہی ہے۔
تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ’دراصل شکست سے بچنے کے لیے بی جے پی نے فرار کا راستہ اختیار کیا اور جن دو مقامی جماعتوں کے خلاف پروپیگنڈا کیا، عوام کے سامنے پھر وہی جماعتیں ووٹ کی حقدار تصور کی جا رہی ہیں جبکہ بی جے پی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو اندرونی طور پر مسترد کرنے کی مہم بھی جاری و ساری ہے۔‘
ایک روزنامے کے ایڈیٹر کہتے ہیں: ’اگر انتخابی دھاندلی نہ ہوئی تو قومی سطح پر جہاں بی جے پی کی ہندوتوا پالیسیوں کے خلاف آج اپوزیشن اتحاد کو ووٹ پڑنے کی توقع ہے، وہیں کشمیر میں بی جے پی کی پالسیوں کے خلاف نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس کو ووٹ دیے جائیں گے حالانکہ ان جماعتوں کی کارکردگی پر بیشتر ووٹر نالاں ہیں۔ بی جے پی کی اندرونی خود مختاری ختم کرنے کے خلاف بڑی تعداد میں ووٹ پڑنے کی امید ہے، خیال ہے کہ بی جے پی کے مضبوط گڑھ جموں میں بھی اس بار سرپرائز ہو گا۔‘
ملکی سطح پر انتخابی مہم میں بی جے پی نے آرٹیکل 370 کی منسوخی، تین طلاق اور رام مندر کی تعمیر کو اپنے اہم کارناموں میں گنوایا ہے مگر کشمیر کو فتح کرنے کے دعوے کے بعد انتخابی میدان سے فرار پارٹی کی شکست تصور کی جا رہی ہے۔
بی جے پی نے کشمیر سے انتخابی فرار کے الزام کا ابھی تک جواب نہیں دیا ہے اور نہ میڈیا نے اس موضوع کو چھیڑنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ اس بار کے پارلیمانی انتخابات نہ صرف جموں و کشمیر سے ایک نیا پیغام تصور کیا جائے گا بلکہ انڈیا کے بدلتے سیاسی مستقبل کی تصویر بھی عیاں ہو جائے گی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔