پاکستان اٹارنی جنرل منصور اعوان نے منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کے ایک مبینہ خط کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت یا کوئی بھی ریاستی ادارہ کسی بھی طرح نہ تو عدلیہ کے معاملات یا آئینی فرائض میں مداخلت کرسکتا ہے اور نہ کرتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار کا چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو لکھا گیا ایک مبینہ خط سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے، جس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ آڈیو لیکس کیس کی سماعت کے دوران انہیں اس ’کیس سے پیچھے ہٹ‘ جانے کے پیغامات موصول ہوئے تھے۔
مبینہ خط میں جسٹس بابر ستار نے کہا ہے کہ ’مجھے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ حکام کی طرف سے پیغامات بھیجے گئے اور کہا گیا کہ میں شہریوں کی نگرانی کے نظام و طریقہ کار کی جانچ سے پیچھے ہٹ جاؤں، میں نے اس طرح کے دھمکی آمیز ہتھکنڈوں پر کوئی توجہ نہیں دی، یہ بھی نہیں سوچا کہ اس طرح کے پیغامات سے انصاف کے نظام کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔‘
اس حوالے سے اٹارنی جنرل منصور اعوان کا ایک ویڈیو پیغام ٹی وی چینلز پر نشر کیا گیا جس میں انہوں نے مبینہ خط کے مندرجات کی تفصیلی وضاحت کرتے ہوئے کسی قسم کی مداخلت کے تاثر کو مسترد کیا ہے۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ ’اس خط کے مندرجات کچھ اس طرح سے رپورٹ ہو رہے ہیں، جس سے یہ تاثر جا رہا ہے کہ جیسے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کوئی مداخلت ہو رہی ہے۔‘
انہوں نے جسٹس بابر ستار کا نام لیے بغیر کہا کہ ’جج صاحب کو ایک مخصوص کیس کے حوالے سے کوئی پیغام اس طرح کا گیا یا انہوں نے سمجھا یا کسی ایک ایسے شخص کی طرف سے گیا جو نہیں جانا چاہیے تھا، لہذا میں نے سوچا کہ میں اس کی وضاحت کردوں۔‘
بقول اٹارنی جنرل: ’خط کے جو مندرجات ہیں، انہوں (جسٹس بابر ستار) نے اس میں خود کہا ہے کہ جو پیغام انہوں نے سمجھا، وہ پیغام کسی طرح بھی انصاف کے اصول کی مداخلت نہیں تھی، ان کا حوالہ اس خط میں اس شخص یا مہم کی طرف ہی تھا۔ بہرحال یہ بات سوشل میڈیا پر چلی گئی ہے تو بحیثیت اٹارنی جنرل میں نے ضروری سمجھا کہ اس کی وضاحت کردی جائے اور یہ ضروری بھی اس لیے تھا کہ ایک ایسا تاثر بنتا جا رہا ہے یا بنایا جا رہا ہے کہ عدلیہ یا ایگزیکٹو کے درمیان تعلقات خراب ہوچکے ہیں اور اس کی وجہ سے معاملات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا: ’میں بالکل سمجھتا ہوں کہ حکومت یا کوئی ریاستی ادارہ کسی بھی طرح عدلیہ کے معاملات یا آئینی فرائض میں مداخلت نہ کرسکتا ہے، نہ کرتا ہے اور اس تاثر کی میں پر زور طریقے سے نفی کرتا ہو۔ میڈیا سے بھی درخواست ہے کہ وہ جو خط ہے اس کے متن پر غور فرمالیں کہ اس میں انہوں نے کس چیز کو کہا ہے کہ وہ انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ تھی۔‘
بقول اٹارنی جنرل: ’میری معلومات کے مطابق کسی بھی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے افسر نے نہ براہ راست رابطہ کیا، نہ وہ کرتے ہیں اور نہ وہ کرسکتے ہیں۔ وہ رابطہ اٹارنی جنرل کے ذریعے ہوا اور اس حد تک ہوا کہ حساس قسم کی معلومات اِن کیمرہ کی جائیں، یہاں تک ہی درخواست تھی۔
دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے بھی منگل کو وزیر قانون کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں اس معاملے پر بات کرتے ہوئے عدالتی امور میں مداخلت اور دباؤ کے الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ ’کسی نے یہ پیغام نہیں دیا کہ آپ پیچھے ہٹ جائیں، صرف ان کیمرا بریفنگ کا کہا گیا تھا۔‘