بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھنے والے بچوں سے جب انسانی جسم اور نظام تولید کے بارے میں بات کرنی ہو تو اکثر والدین پرندوں کے انڈے اور جانوروں کے بچے جیسے موضوعات سے بات شروع کرتے ہیں جو ان کے خیال میں ایک فائدہ مند طریقہ ہے۔
تاہم پیرنٹنگ یا والدین کی ذمہ داریوں پر بات کرنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اس بارے میں بچوں سے بات جلد شروع کی جانی چاہیے اور متعدد مواقع پر اس بارے میں سوال جواب کیے جانے چاہئیں۔
پیرنٹنگ کی ایک ماہر مشیل باربا نے ’دی انڈپینڈنٹ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ اس حوالے سے بات چیت کا آغاز اوائل عمری سے ہی کر دیا جائے۔
’بہت سے بچوں اور ان کے والدین سے بات کرنے کے بعد میرے خیال میں اس حوالے سے سب سے اہم کام جو ہمیں کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم انسانی جسم اور نظام تولید کے بارے میں اپنے بچوں سے نو، تیرہ یا سولہ برس کی عمر تک بات کرنا شروع کرتے ہیں۔ جب کہ حقیقت میں تحقیق کہتی ہے کہ ہم اگر شروع سے ہی اس بارے میں بات کریں، ان کے سوالوں کے مناسب جواب دیں، انہیں ان موضوعات پر بات کرنے سے نہ روکیں تو یہ ان کے لیے بہتر ہے۔ یہ صرف ایک لمبا لیکچر نہیں ہے بلکہ اسے چھوٹی چھوٹی بات چیت کے ذریعے انجام دینا چاہیے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا ’تحقیق کا کہنا ہے کہ اگر آپ قدرتی طور پر تھوڑی بہت ابتدائی گفتگو کرتے ہیں تو بچے اس کے بارے میں زیادہ آسانی سے بات کر پاتے ہیں۔‘
تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کمسن بچوں کو براہ راست جسمانی تعلق کے بارے میں تعلیم دی جائے بلکہ بچے اگر کچھ پوچھیں تو انہیں جسمانی اعضا کی صحیح اصطلاحات کے بارے میں بتائیں اور ان اعضا کے لیے عرفی نام استعمال نہ کریں۔
ڈاکٹر باربا نے کہا: ’جسم میں موجود تمام اعضا کے لیے ان کے اصل نام اور اصطلاحات استعمال کریں کیوں کہ جب وہ بچے بڑے ہوں گے تو اس سے انہیں آسانی ہو گی اور وہ اس بارے میں اپنے والدین سے بات کر سکیں گے۔‘
بصورت دیگر اگر والدین ان موضوعات یا اصطلاحات پر بات کرنے سے ہچکچائیں گے تو اس کے نتیجے میں وہ بچوں کو بھی ایسی ہی ہچکچاہٹ کا شکار بنا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر باربا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ’جب آپ کو یہ لگتا ہے کہ انسانی جسم اور افزائش نسل کے بارے میں بات کرنا قدرتی نہیں ہے تو درحقیقت ہم بچوں کو بھی یہی سکھا رہے ہوتے ہیں اور یوں ان کا اس اہم موضوع پر بات کرنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر باربا مشورہ دیتی ہیں کہ والدین اور بچوں کے درمیان تعلق اتنا مضبوط ہونا چاہیے کہ وہ کسی بھی موضوع پر بات کرنے میں اطمینان محسوس کریں۔
انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ ابھی تک ہم یہ جاننے میں ناکام رہے ہیں کہ بچوں سے نظام تولید کے حوالے سے بات کرنے کی صحیح عمر کیا ہے۔ تاہم ڈاکٹر باربا نے کہا کہ ’والدین کو ان سے ایک قدم آگے رہنے کی ضرورت ہے اور وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں کہ وہ کس قسم کا مواد دیکھ رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا ’سب سے غلط بات یہ ہے کہ ہم بہت زیادہ انتظار کرتے ہیں جب تک بچے اپنے دوستوں سے غلط معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔‘
یہ امر یقینی بنانے کے لیے کہ والدین کے پاس تمام ضروری معلومات ہوں، وہ دوسرے والدین کے ساتھ بات کرنے پر غور کرسکتے ہیں تاکہ یہ معلوم کر سکیں کہ ان کے بچے کیا سیکھ رہے ہیں۔ والدین کو اپنے بچوں کی ہیلتھ بک پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر باربا نے ان اصولوں پر عمل کرنے کی بھی سفارش کی ہے جو باقی چیزوں کو مدنظر رکھنے پر لاگو ہوتے ہیں مثلاً عمر، دیگر مراحل اور یہ کہ وہ کیوں یہ سب جاننا چاہتے ہیں۔
’جب بھی آپ کا بچہ آپ سے کوئی سوال پوچھتا ہے تو آپ کا پہلا سوال یہ ہونا چاہیے ’مجھے بتائیں کہ آپ کا اس بات سے کیا مطلب ہے؟‘ آپ ان کی ترجمانی کرنا بند کریں اور ان سے ان کے سوال کی تشریح پوچھیں۔‘
’بچوں کو ان کے سوالوں کی وضاحت کرنے کا موقع فراہم کرنے سے والدین ان کے خیالات جان سکتے ہیں۔ انہیں سب کچھ بتانے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں کیوں کہ وہ بعض چیزوں کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔‘
ڈاکٹر باربا نے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بچوں سے یہ پوچھیں کہ جب ان کے دوست آتے ہیں تو وہ ایسے موضوعات پر کیا باتیں کرتے ہیں۔
’پھر آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بالکل صحیح نہیں ہے لیکن مجھے بہت خوشی ہے کہ ہمیں اس بارے میں بات کرنے کا موقع ملا۔‘
’اس بات چیت کے دوران والدین کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی دلچسپی، اقدار اور مذہب جیسے موضوعات پر مبنی گفتگو کو ذاتی نوعیت کا بنائیں۔ نیز ہم عصر دوستوں کے دباؤ پر قابو پانے اور انہیں انکار کرنے کی اہمیت کے بارے میں تعلیم دیں۔‘
اگر بچے والدین کے پاس نہیں آئے ہیں یا والدین کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ ایسے موضوع پر کیسے بات شروع کریں تو ڈاکٹر باربا کے مطابق والدین کسی فلم یا میگزین کے آرٹیکل کے ذریعے اس موضوع پر گفتگو کا آغاز کر سکتے ہیں۔
’ہم میں سے بیشتر والدین یہ سوچتے ہیں کہ جب ان کے بچے ٹین ایج میں داخل ہوں گے تو ہم ان سے اس حوالے سے اہم باتیں کریں گے لیکن اس وقت تک وہ اس بارے میں پہلے ہی جان چکے ہوتے ہیں اور شاید غلط معلومات حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔‘
© The Independent