سمیرا محبوب بلوچستان کے دور دراز علاقے خضدار میں ایک نئے طرز پر لڑکیوں کو تعلیم فراہم کر رہی ہیں۔
سمیرا نے بچپن میں یہاں کے نظام تعلیم میں جن نقائص کا سامنا کیا، ان سب کے خاتمے کے لیے وہ امریکہ میں رائج جدید نظام تعلیم کے مطابق اپنے سکول میں بچیوں کو پڑھا رہی ہیں۔
سمیرا اپنے بچپن کے بارے میں کہتی ہیں گھر کے سخت ماحول کی وجہ سے وہ تعلیم پر توجہ نہیں دے پا رہی تھی اور اساتذہ کا رویہ بھی خراب رہا لیکن جیسے تیسے انہوں نے میٹرک کرہی لیا۔
انہیں اندازہ ہوا کہ فرسودہ نظام کے باعث لڑکیوں کی تعلیم کتنی متاثر ہو رہی ہے لہذا انہوں نے علاقے کی بچیوں کے لیے کچھ کرنے کا مضبوط عزم کرتے ہوئے میٹرک کے بعد پڑھانا شروع کر دیا۔
وہ روایتی نظام تعلیم کے خلاف آواز بلند بھی کرتی رہیں۔ اس دوران جب انہوں نے خضدار کے روایتی ماحول میں پڑھائی کا نیا طریقہ کار رائج کرنے کی کوشش کی تو انہیں سماجی و معاشرتی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
سمیرا پڑھائی کے ساتھ ساتھ نوکری کرتی رہیں لیکن وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے بھی کوشاں رہیں۔ 2013 میں انہوں نے فیس بک پر ایک فیلو شپ پروگرام دیکھا جس میں نصابی تعلیم کے حوالے سے کسی نئے خیال کا پوچھا گیا تھا اور ضروری تھا کہ اسے پیش کرنے والا اُسے اپنے علاقے میں نافذ بھی کرے۔
سمیرا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’میں نے اپنے خیال کوعملی شکل دے کر فیلو شپ کے لیے بھیج دیا جو منظور کرلیا گیا۔ اس کے تحت مجھے امریکہ کا دورہ بھی کرایا جانا تھا۔‘
امریکہ سے واپسی پر2015 میں انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنے علاقے میں ایک جدید طرز تعلیم کا حامل سکول قائم کریں گی۔ انہوں نے ملازمت چھوڑی اور اپنی جمع پونجی سے ’سکول آف سکالرز‘کی بنیاد رکھی۔
کوئٹہ سے 301 کلومیٹر دور ضلع خضدار کی آبادی آٹھ لاکھ سے زائد ہے۔ ضلع خضدار پانچ تحصیلوں اور 29 یونین کونسلز پر مشتمل ہے۔
یورپی یونین کے تعاون سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق یہاں پرائمری سطح پر لڑکیوں کے سکول میں داخلے کی شرح کم ہے اور مڈل اور ہائی سکول کی سطح پر ڈراپ آؤٹ کی شرح بھی باقی اضلاع سے زیادہ ہے۔
سکول کا نظام
سمیرا محبوب نے بتایا ’ہمارے سکول کا نظام ایسا ہے کہ کلاس شروع کرنے سے قبل ہم بچوں سے ان کے گزرے ہوئے دن کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ اگرانہیں کوئی مسئلہ یا پریشانی ہے تو وہ سامنے لائیں اور اگر کوئی خوف وغیرہ ہے تو وہ نکل جائے، اس پر بات کر لیں۔ اس کے بعد باقاعدہ کلاس شروع کی جاتی ہے۔ یوں ہم گھریلو مسائل سے بچیوں کو نکالنے کے لیے ان کی کونسلنگ کرتے ہیں۔‘
’ہم نے سکول میں فرنیچر نہیں رکھا تاکہ ماحول گھر جیسا رہے اور طالبات پرسکون طریقے سے تعلیم حاصل کرسکیں کیوں کہ ہم دیہی علاقوں کے لوگ ہیں اور ہمارے بچے میز کرسی سے مانوس نہیں۔ انہیں زمین پر بیٹھ کر پڑھنا زیادہ آسان لگتا ہے۔‘
واضح رہے سکول میں بچوں کے لیے قالین بچھائے گئے ہیں جن کی تصاویر اوپر موجود گیلری میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
سمیرا بتاتی ہیں کہ ان کے سکول میں کلاس شروع کرنے سے پہلے کہانیاں سنائی جاتی ہیں تاکہ بچیاں اس چیز کو سمجھ جائیں جس کے بارے میں سبق پڑھایا جانا ہے۔ پھرانہیں نصابی تعلیم دی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے کمزور طالبات کو موقع دیتی ہیں اور ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے تاکہ انہیں ذہین طالب علموں کی صف میں کھڑا کر سکیں۔ سمیرا کا یہ بھی ماننا ہے کہ انہوں نے ایسے سکول کی بنیاد رکھی ہے جو باقاعدہ ایک منظم طریقہ کار کے تحت ہے، کل اگر وہ نہ رہیں پھر بھی یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
سمیرا کو یقین ہے کہ اگر ان کا سکول کا اسلام آباد، کراچی یا لاہور کے کسی سکول سے تقابل کیا جائے تو شاید کچھ انوکھی چیز نہ لگے لیکن کوئٹہ اور کراچی سے ایک جتنی دوری پر موجود خضدار میں جدید نظام تعلیم کا حامل یہ واحد سکول ہے۔