بلوچستان کے ضلع پشین کے اسد اللہ بازئی پچھلی دو دہائیوں سے پاکستان کے قومی جانور مارخور کی حفاظت کر رہے ہیں۔
اسد اللہ اور مقامی سطح پر بنائی گئی برادری تین اضلاع (زیارت، پشین اور كوئٹہ) پر پھیلے کوہ تکتو میں وقتاَ فوقتا پہرہ دیتے ہیں تاکہ کوئی شکاری ان پہاڑوں میں معدوم ہونے والے مارخور کا شکار نہ کر سکے۔
اسد اللہ دیگر ایوارڈز کے ساتھ ساتھ پاکستان سب سے اچھے نشانہ باز کا ایوارڈ اپنے نام کر چکے ہیں۔
انہوں نے خود بھی 20 سال سے زائد عرصے تک جانوروں کا شکار کیا۔ تاہم کوہ تکتو میں سال 2000 تک مارخور تقریباً ختم ہونے کے قریب پہنچے تو ان کے عزیز و اقارب نے نہ صرف خود بلکہ دوسروں کو بھی علاقے میں شکار سے روکنے کا عہد کیا۔
انہوں نے اس مقصد کے لیے گروپ بنایا جو مسلسل كوہ تكتو میں مارخور جانوروں اور دیگر پرندوں كی حفاظت كرتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہمارے گاؤں میں غیرملکی اور دوسرے بڑے لوگ آکر شکار کرتے تھے جس کے سبب ہم میں بھی شکار کا شوق پروان چڑھا۔
’جب وہ لوگ چلے جاتے تو ہم بندوقیں اٹھا کر ان جانوروں اور پرندوں کے پیچھے بھاگتے رہتے، پھر نوبت یہاں تک آئی کہ دنوں تک ڈھونڈنے پر بھی ایک مارخور نہیں ملتا تھا۔
’تب ہم نے آپس میں مل بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ اب سے نہ خود شکار کریں گے اور نہ دوسروں کو شكار کرنے دیں گے۔‘
2015 میں اقوام متحدہ میں جانوروں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ادارے (آئی یو این) نے مارخور کو زیادہ شکار اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے باعث ان جانوروں کی فہرست میں ڈالا جن کی نسل ختم ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔
مارخور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ ہندوکش پہاڑی سلسلے میں پاکستان کے گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پائے جاتے ہیں۔
کوہ سلیمان ریجن میں پایا جانے والا مارخور گلگت بلتستان کے مارخور سے اس لحاظ سے مختلف ہے كہ اس کے سینگ چھوٹے اور بال کم ہوتے ہیں۔
مارخور کی کئی اقسام ہیں جن میں استور، کابلی، بخارائی، کشمیری اور سلیمان مارخور شامل ہیں۔
تکتو کے اس پہاڑی علاقے میں پائے جانے والے مارخور کو کوہِ سلیمان کی مناسبت سے سلیمان مارخور کہا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پاكستان اور آٹھ دیگر ممالک كی جانب سے پیش کی گئی قرارداد منظور كر كے 24 مئی کو پاکستان کے قومی جانور مارخور کا عالمی دن منانے كا اعلان كیا ہے۔
اس قرارداد میں اقوام متحدہ کے ماحولیات کے پروگرام (یو این ای پی ) کو مارخور کے عالمی دن کو منانے میں سہولت فراہم کرنے پر زور دیا گیا۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این ) كے مطابق مارخور کی آبادی 2014 سے سالانہ دو فیصد کے تناسب سے بڑھ رہی ہے اور پاكستان میں مارخور کی موجودہ تخمینہ شدہ آبادی 3,500 اور 5,000 کے درمیان ہے۔
اسد اللہ بتاتے ہیں کہ برادری کے اس اقدام سے کوہ تکتو میں مارخور کی تعداد میں اب کئی سو گنا اضافہ ہوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’2000 میں یہاں كیے گئے سروے كے مطابق مارخوروں كی تعداد صرف 35 تھی، مگر 2018 كے سروے كے مطابق یہ تعداد ایک ہزار كے قریب تھی۔
’میرے مطابق اس وقت تكتو پہاڑی ریجن میں مارخوروں كی تعداد ہزاروں میں ہے۔‘
اسد اللہ کہتے ہیں کہ ان کی کوشش ہے 1962 میں گیم ریزور قرار دینے والے اس علاقے ژور کانڑ میں ٹرافی ہنٹنگ كی جائے تاكہ ملنے والی رقم واپس یہاں موجود مارخور پر لگا کر ان کی تعداد میں اضافہ اور دوسرے اقدامات كیے جائیں۔
’ہم نے حکومت کو کئی بار درخواست جمع کروائی كہ 1962 گیم ریزور قرار دینے والے اس علاقے میں ٹرافی ہنٹنگ شروع كروائی جائے مگر تقریباَ 62 سال گزرنے كے باوجود یہاں پر كوئی ٹرافی ہنٹنگ نہیں كروائی گئی۔
’ایک ٹرافی ہنٹنگ کے لاکھوں، کروڑوں روپے ملتے ہیں جس سے یہاں موجود مارخور کے لیے اچھے طریقے سے کام کیا جا سکتا ہے۔‘
ٹرافی ہنٹنگ کے لیے مخصوص اجازت نامہ لاکھوں ڈالرز میں فروخت جاتا ہے اور سال کے مخصوص سیزن میں ان نر مارخور کا شکار کیا جاتا ہے جن کی عمر پانچ یا بعض اوقات آٹھ سال سے زیادہ ہو۔
مارخور کے مخصوص اور بل کھاتے سینگ سے اس کی عمر کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
اسد اللہ کے مطابق سانپ جیسے بل کھاتے اس جانور کے سینگ کی وجہ سے مارخول جو اب مارخور کہلایا جاتا ہے۔
انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ تکتو کی مقامی برادری کی کوششوں کے باوجود مارخور کو اب بھی خطرات لاحق ہیں اور وقتاً فوقتاً غیرقانونی شکار کی رپورٹس درج ہوتی رہتی ہیں جس کی بڑی وجہ وہ ثقافتی طور پر شکار کو اچھا اور بہادری سمجھنا اور کمزور اور دیر پا قانون کو سمجھتے ہیں۔
اسد اللہ اور ان کی ٹیم نے وقت کے ساتھ ساتھ اب کیمرے بھی لگا لیے ہیں جس کی بدولت وہ کوہ تکتو میں مارخوروں کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر کے دنیا تک پہنچانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔