سائنس دانوں نے زمین سے ملتا جلتا نیا سیارہ دریافت کیا ہے جو صرف 40 نوری سال کی دوری پر واقع ہے اور وہاں خلائی مخلوق کا وجود ہو سکتا ہے۔
یہ سیارہ قابل رہائش دنیا کی تلاش میں ایک قابل ذکر دریافت ہے۔ یہ زمین سے تھوڑا سا چھوٹا ہے، اور تھوڑا سا گرم سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے نظام شمسی سے باہر بہت سے سیارے، جنہیں بیرونی دنیا کے سیارے کہا جاتا ہے، ہماری اپنی دنیا سے کہیں زیادہ بڑے اور گرم ہوتے ہیں۔
نئے دریافت ہونے والے سیارے کو گلیز 12 بی کا نام دیا گیا ہے اور محققین کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں یہ نہ بھی پتہ چلے کہ آیا وہاں خلائی مخلوق موجود ہے یا نہیں تو پھر بھی اس سے ہمیں دوسری دنیاؤں کی تلاش میں مدد ملے گی جن کا وجود ہو سکتا ہے۔
سیارہ ہر 12.8 دن میں اپنے میزبان ستارے کے گرد چکر لگاتا ہے اور سائز میں زہرہ کے برابر ہے۔ زمین سے تھوڑا سا چھوٹا۔
اس کی سطح کا درجہ حرارت 42 درجے سیلسیئس ہے، جو اب تک کے زیادہ تر تصدیق شدہ پانچ ہزار بیرونی سیاروں (نظام شمسی سے باہر کے سیاروں) کے مقابلے میں کم ہے۔
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ گلیز 12 بی ان چند معلوم سیاروں میں سے ایک ہے جہاں انسان تصور کی حد تک زندہ رہ سکتا ہے، لیکن یہ بات اب بھی غیر یقینی ہے کہ ان سیاروں کی فضا کیسی ہے، اگر کوئی ہے تو۔
ان سیاروں کا ماحول کیسا نظر آتا ہے اس کا جواب حاصل کرنا بہت ضروری ہے کیوں کہ اس سے پتہ چلے گا کہ آیا سیارہ اپنی سطح پر مائع صورت میں پانی اور ممکنہ طور پر زندگی کے وجود کے لیے موزوں درجہ حرارت برقرار رکھ سکتا ہے یا نہیں۔
ٹوکیو میں ایسٹروبائیولوجی سینٹر میں پروجیکٹ اسسٹنٹ پروفیسر ماسایوکی کوزوہارا، جنہوں نے آکی ہیکو فوکوئی کے ساتھ ایک تحقیقی ٹیم کی مشترکہ قیادت کی، کہا کہ ’ہم نے اب تک کی قریب ترین، حرکت پذیر، معتدل، زمین کے حجم کی دنیا دریافت کی ہے۔
’اگرچہ ہم ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ آیا اس کی کوئی فضا موجود ہے یا نہیں، لیکن ہم اسے بیرونی دنیا کا زہرہ سیارہ سمجھ رہے ہیں، جس کا حجم وہی ہے جو نظام شمسی میں ہمارے ہمسایہ سیارے کا ہے اور اس نے اپنے ستارے سے اتنی ہی مقدار میں توانائی حاصل کی۔‘
یونیورسٹی آف واروک کے پروفیسر تھامس ولسن نے، جو ایک طبیعیات دان ہیں، یہ سیارہ دریافت کیا اور خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کے مصنوعی سیاروں کے بارے میں معلومات کا استعمال کرتے ہوئے سیارے کے وجود اور خصوصیات جیسے اس کے حجم، درجہ حرارت اور زمین سے فاصلے کی تصدیق کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ واقعی دلچسپ دریافت ہے اور اس سے زمین سے ملتے جلتے سیاروں پر ہماری تحقیق میں مدد ملے گی۔
’افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سیارہ ہمارے لیے اس کا زیادہ قریب سے تجربہ کرنے کے معاملے تھوڑا دور ہے۔ آج ہم جو روشنی دیکھ رہے ہیں وہ 40 سال پہلے کی ہے یعنی یہاں زمین پر ہم تک پہنچنے میں اسے اتنا وقت لگا۔
’گلیز 12 بی جیسے سیارے بہت کم ہیں اور بہت دوری پر واقع ہیں، لہٰذا ہمارے لیے اس کا قریب سے جائزہ لینے، اس کی فضا اور درجہ حرارت کے بارے میں جاننے کے قابل ہونے کا امکان کم ہے۔‘
ٹوکیو میں موجود سائنس دانوں کی ٹیم سمیت دونوں ٹیموں نے ناسا کے ٹی ای ایس ایس (ٹرانزٹنگ ایکسوپلینٹ سروے سیٹلائٹ) کے مشاہدات کا استعمال کرتے ہوئے اپنی دریافت میں مدد لی۔
سیارہ جسے گلیز 12 کہا جاتا ہے، نسبتاً سرد اور سرخ رنگ کا ہے۔ یہ ستاروں کے اس جھرمٹ میں واقع ہے جسے ’پیسیس‘ کہتے ہیں۔ سورج کی طرح سیارے اس کے گرد گردش کرتے ہیں۔
یہ سیارہ سورج کے سائز کا صرف 27 فیصد ہے اور اس کا درجہ حرارت سورج کی سطح کا درجہ حرارت کا 60 فیصد ہے۔
گلیز 12 بی زمین کی طرح کا دریافت ہونے والا نظام شمسی سے باہر واقع پہلا سیارہ نہیں لیکن ناسا کا کہنا ہے کہ اس جیسی چند ہی دنیائیں ایسی ہیں جو قریب سے دیکھے جانے کی متقاضی ہیں۔
امریکی خلائی ادارے کی ساڑھے سات ارب پاؤنڈ مالیت کی جیمز ویب خلائی دوربین کی مدد سے مزید تحقیق کے لیے ممکنہ ہدف قرار دیا گیا ہے۔
نیا دریافت ہونے والا سیارہ اس لیے بھی اہم ہوسکتا ہے کیوں کہ اس سے یہ سامنے لانے میں مدد مل سکتی ہے کہ آیا کہکشاں میں موجود ستاروں کی اکثریت معتدل سیاروں کی میزبانی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں جن کی فضا موجود ہے اور اس لیے وہ رہنے کے قابل ہیں۔
سیارے اور اس کے ستارے کو الگ کرنے والا فاصلہ زمین اور سورج کے درمیان فاصلے کا صرف سات فیصد ہے، اور یہ سیارہ اپنے ستارے سے اس توانائی سے 1.6 زیادہ توانائی حاصل کرتا جو زمین سورج سے حاصل کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فضا کا مالک ہونے میں ایک اہم بات اس کے ستارے کی طوفانی پن ہے۔
سرخ رنگ کے چھوٹے سیارے مقناطیسی طاقت کے مالک ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اندر سے بار بار طاقت ور ایکس رے شعلے خارج ہوتے رہتے ہیں۔
تاہم، سائنس دانوں کے تجزیوں سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ گلیز 12 سے انتہائی رویے کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی۔
آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف سدرن کوئنز لینڈ میں سینٹر فار ایسٹرو فزکس میں ڈاکٹریٹ کے طالب علم شیشر ڈھولکیا کا کہنا ہے کہ ’گلیز 12 بی اس بات کا مطالعہ کرنے کے لیے بہترین اہداف میں سے ایک ہے کہ سرد ستاروں کے گرد گردش کرنے والے زمین کے سائز کے سیارے اپنی فضا کے مالک ہو سکتے ہیں یا نہیں۔
یہ ہماری کہکشاں میں سیاروں پر رہائش اختیار کرنے کے بارے میں ہمارے فہم کو آگے بڑھانے کے لیے اہم پیش رفت ہے۔‘
انہوں نے یونیورسٹی آف ایڈنبرا اور یونیورسٹی کالج لندن (یو سی ایل) میں ڈاکٹریٹ کی طالبہ لاریسا پالتھورپ کے ساتھ مل کر تحقیقی ٹیم کی قیادت کی۔
اس تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر ونسنٹ وان ایلن کا کہنا ہے کہ ’جی جے 12 بی حیرت انگیز طور پر دلچسپ سیارہ ہے کیوں کہ اس کا حجم زمین جتنا ہے۔
اگرچہ جی جے 12 بی زمین کے ہمارے سورج سے فاصلے کے مقابلے میں اپنے ستارے سے 15 گنا قریب ہے کیوں کہ یہ اتنے چھوٹے ستارے کے گرد چکر لگاتا ہے کہ سیارے کا درجہ حرارت زمین کے درجہ حرارت کے برابر ہوسکتا ہے۔
’یہ لازمی طور پر اس بات کی ضمانت نہیں کہ سیارہ رہنے کے قابل ہے، لیکن یہ اسے تلاش شروع کرنے کے حوالے سے ایک بہترین مقام بناتا ہے۔
خوش قسمتی سے یہ ایک بہت قریب ستارہ بھی ہے، اس لیے ہم آئندہ برسوں میں جے ڈبلیو ایس ٹی جیسی دوربینوں کی مدد سے اس سیارے اور اس کی فضا کے بارے میں بہت کچھ جان پائیں گے۔‘
ٹوکیو میں محققین کی سربراہی میں ایک مقالہ دی ایسٹروفزیکل جرنل لیٹرز نامی جریدے میں میں شائع ہوا ہے۔ ڈھولکیا اور پالتھورپ کے نتائج رائل ایسٹرونومیکل سوسائٹی کے جریدے منتلھی نوٹسز میں شائع ہوئے ہیں۔
اس رپورٹ کی تیاری میں خبر رساں ادارروں سے اضافی مدد لی گئی ہے۔