پنجاب:خسرہ کیوں پھیل رہا ہے اور بچوں کو اس سے کیسے بچایا جائے؟

محکمہ صحت پنجاب کے اعداد وشمار کے مطابق گذشتہ سات روز کے دوران صوبے بھر میں 933 بچوں میں خسرے کی بیماری رپورٹ ہوئی، جبکہ کم از کم پانچ بچوں کی اموات بھی ہو چکی ہیں۔

31 جنوری 2024 کی اس تصویر میں لاہور کے ایک ہسپتال میں والدین اپنے بچوں کے علاج کی غرض سے موجود ہیں (اے ایف پی)

پنجاب کے مختلف شہروں میں بچوں میں خسرے کے مرض میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور گذشتہ سات روز کے دوران کئی بچوں کی اموات کے نتیجے میں محکمہ صحت پنجاب نے اس کے سدباب کے لیے کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔

محکمہ صحت پنجاب کے اعداد وشمار کے مطابق گذشتہ سات روز کے دوران صوبے بھر میں 933 بچوں میں خسرے کی بیماری رپورٹ ہوئی، جن میں سب سے زیادہ یعنی 119 بچے جھنگ سے ہسپتالوں میں پہنچے۔

اسی طرح ایک ہفتے کے دوران راولپنڈی سے 86، شیخوپورہ سے 64، چنیوٹ سے 44 اور قصور سے 41 خسرے کے مریض بچوں کی تشخیص ہوئی جبکہ لاہور میں اس دوران 27 مریض بچے سامنے آئے۔

خانیوال اور پتوکی کے دیہی علاقوں میں گذشتہ سات روز میں 10 بچوں کی اموات کی رپورٹ بھی سامنے آئیں، جن میں سے کم از کم پانچ اموات خسرے کے باعث بتائی جا رہی ہیں جبکہ دیگر پانچ کی موت کی وجہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

محکمہ صحت پنجاب کے ترجمان ملک مقبول احمد نے بتایا کہ ’پتوکی کے نواحی گاؤں میں ہونے والی پانچ بچوں کی اموات کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔ ان کے نمونے لیبارٹری بھجوائے گئے ہیں تاکہ موت کی وجہ کی تصدیق ہوسکے۔ ابتدائی طور پر ان پانچوں بچوں کی اموات ہیٹ ویو سے ہونے کا خدشہ پایا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب خانیوال کے نواحی گاؤں کوہی والا کبیروالا میں خسرے کے باعث پانچ بچوں کی اموات پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر سی ای او ہیلتھ خانیوال ڈاکٹر عبدالمجید بھٹی، ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (پریوینٹو سروسز) ڈاکٹر فضل الرحمان بلال، ڈی ڈی ایچ او کبیروالہ ڈاکٹر عالم شیر کو فرائض سے غفلت برتنے پر معطل کردیا گیا ہے۔

ان تینوں افسران کے خلاف باقاعدہ محکمانہ انکوائری کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

خسرے کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر تمام سرکاری ہسپتالوں میں ہیٹ ویو کے کاؤنٹرز قائم کردیے گئے ہیں۔

ترجمان محکمہ صحت نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’خسرے کی تشخیص صرف ان بچوں میں ہو رہی ہے، جنہیں حفاظتی ٹیکے نہیں لگوائے گئے۔ ہر سال حکومت نو ماہ سے 11 سال تک کے بچوں کو حفاظتی ٹیکے مفت لگواتی ہے، مگر بیشتر والدین بچوں کو حفاظتی ٹیکے یا پولیو کے قطرے باقاعدگی سے نہیں لگواتے۔‘

عالمی ادارہ صحت کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں خسرے کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں شامل ہو گیا ہے، جہاں صرف سال 2023 میں جولائی سے دسمبر کے درمیان سات ہزار سے زیادہ افراد خسرے کا شکار ہوئے تھے۔

خسرے کی علامات اور بچاؤ کے طریقے

چلڈرن ہسپتال لاہور کے میڈیکل یونٹ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو  کو بتایا کہ ’خسرے کی علامات جسم پر سرخ دانوں، بخار، کھانسی، نزلے اور زکام سے ظاہر ہوتی ہیں۔ کئی بار والدین جسم پر دانوں کو چکن پاکس سمجھ کر بچوں کو ہسپتال نہیں لے جاتے۔ اسی طرح بخار یا کھانسی کی صورت میں بھی ان کا علاج نہیں ہوتا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے ہاں دیہی علاقوں میں بچوں کو عام طور پر گھریلو ٹوٹکوں کے ذریعے ہی تندرست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس سے خسرہ جیسا مرض بڑھ جاتا ہے اور پھر اسے ہسپتال لایا جاتا ہے، تب مریض کو بچانا بھی کئی بار مشکل ہوجاتا ہے۔‘

ڈاکٹر خالد کے بقول: ’اگر تین یا چار دن تک بخار نہ اترے، کھانسی ختم نہ ہو یا جسم سے دانے ختم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہوں اور آنکھیں سرخ ہو رہی ہوں تو بچوں کو فوری ہسپتال لانا چاہیے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ’اس سے بچنے کا سب سے بڑا طریقہ حفاظتی ٹیکے ہیں اور بچوں کو نو ماہ کی عمر میں پہلا جبکہ تین ماہ بعد دوسرا لگوانا ہوتا ہے، لیکن کئی والدین بعض اوقات ایک انجیکشن لگوا کر دوسرا لگوانا بھول جاتے ہیں اور کئی بار لگوائے ہی نہیں جاتے، لہذا بچوں کو کسی بھی عمر میں خسرے کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔‘

ڈاکٹر خالد مسعود کے بقول: ’خسرے کے جراثیم ایک مریض سے دوسرے میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ کھانسی سے بھی یہ جراثیم کسی چیز یا آس پاس بچوں پر گرتے ہیں اور جیسے ہی بچے ناک یا منہ کو ہاتھ لگاتے ہیں تو یہ جراثیم منتقل ہوتے ہیں، اس لیے خسرے سے متاثرہ مریضوں کو دوسروں سے الگ رکھا جانا چاہیے۔‘

اس حوالے سے ترجمان محکمہ صحت ملک مقبول احمد کہتے ہیں کہ ’حکومت کی جانب سے بچوں کو حفاظتی ٹیکے اور پولیو کے قطرے پلانے کی مہم مسلسل جاری رہتی ہے۔ ہیلپ لائن نمبرز بھی دیے گئے ہیں اور ہر ہسپتال میں بھی کاؤنٹر بنے ہوئے ہیں، جہاں سے باآسانی اور مفت حفاظتی ٹیکے لگوائے جا سکتے ہیں، لیکن عام طور پر دیہی علاقوں میں زیادہ تر والدین حفاظتی ٹیکے یا پولیو کے قطرے پلانے میں دلچسپی نہیں لیتے، جس سے خسرے جیسے امراض کا حملہ بچوں پر آسانی سے ہوجاتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت