پشاور کے خوشحال باغ کے سوئمنگ پول کو مقامی افراد گورکھ ڈگی کہتے ہیں اور اس زمین پر پشاور ٹاؤن ون کے دفاتر بھی موجود ہیں۔
دفاتر کے ساتھ بڑے بڑے درخت، خوبصورت پارک اور سبز گھاس کے بیچ و بیچ واقع اس تالاب کو اب باقاعدہ سوئمنگ پول بنا دیا گیا ہے۔
اس سوئمنگ پول میں پشاور کے مختلف علاقوں سے بچے بڑے پشاور کی تپتی دھوپ سے کچھ لمحات کی نجات کے لیے رخ کرتے ہیں۔
گورکھ ڈگی کی تاریخ کیا ہے؟
انڈپینڈنٹ اردو نے پشاور کی تاریخ پر لکھے گئے کچھ تحقیقوں مقالوں کا مطالعہ کیا لیکن میں اس تالاب کے بارے میں کچھ نہیں ملا لیکن اس تالاب کے سابق 80 سالہ ملازم اسلم خان کے مطابق یہاں پر بہت پہلے مندر ہوا کرتا تھا۔
اسلم خان نے بتایا کہ اس مندر میں گورکھ نات نامی ہندو پیشوا صبح سویرے آکر نہاتے تھے اور اپنی عبادات کرتے تھے اور اس کے بعد یہاں اس پانی سے بچوں کو نہلانے کا کام شروع ہو گیا۔
اسلم خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ’ یہ سوئمنگ پول ماضی میں مندر ہوا کرتا تھا۔ سکھ، ہندو اور انگریز یہاں آتے تھے۔ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ وہ فجر کے لیے ابھی اٹھتے بھی نہیں تھے کہ یہ لوگ اندرون شہر سے یہاں پہنچ جاتے۔
’مندر میں وہ اپنی عبادت کرتے تھے اور تب سے یہ تالاب قائم ہے۔‘
ان کے مطابق ’محکمہ ماہی گیری کو جب یہ دیا گیا تو میرے والد یہاں 30 سال ملازم رہے۔ میں یہاں 25 سال کام کرنے کے بعد ریٹائر ہوا ہوں۔ یہ ایک یادگاری اور تاریخی چشمہ ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ایک کنال مجموعی رقبے پر یہ چشمہ تین مرلوں میں واقع ہے۔ اس میں پانی اتنا زیادہ ہے کہ انگریز اس پانی پر پن چکیاں چلاتے تھے۔‘
سوئمنگ پول کے پانی کے حوالے سے اسلم خان نے بتایا کہ سوئمگ پول صبح چھ سے شام سات بجے تک کھلا رہتا ہے اور اس کے بعد چشمے سے پائپ کے ذریعے پانی نکالا جاتا ہے اور یہ دوبارہ پانچ گھنٹوں میں بھر جاتا ہے۔
پانی کا بہاؤ اتنا زیادہ ہے کہ انگریز دور میں اس کے پانی سے یہاں پن چکیاں چلائی جاتی تھیں لیکن انگریزوں کے جانے کے بعد پن چکیاں بند ہو گئیں اور اب پانی کو قریبی نہر میں ڈالا جاتا ہے۔
ابراہیم ضیا پشاور کے مقامی تاریخ دان اور پشاور کی تاریخ پر ’پشاور تاریخ کے دریچوں میں‘ اور ’پشاور کے فنکار‘ نامی کتابوں کے مصنف ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جس جگہ یہ تالاب واقع ہے اس مقام کو ’گورکھ ڈیگی‘ کہا جاتا تھا اور یہ نام ماضی میں ہندو پنڈت گورکھ نات کے اس جگہ پر جانے سے پڑ گیا تھا۔
ابراہیم ضیا نے بتایا کہ گورکھ نات ہندو حکیم بھی تھے اور اس زمانے میں مختلف بیماریوں کے علاج کی دوا بناتے تھے اور اسی تالاب میں جا کر نہاتے بھی تھے۔
ابراہیم ضیا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ’ اس تالاب میں گورکھ نات جاتے تھے تو وہاں کے لوگوں میں مشہور ہو گیا اور پھر علاج کی غرض سے اسی تالاب میں لوگ مختلف بیماریوں کے علاج کی غرض سے نہاتے تھے۔‘
ابراہیم ضیا نے بتایا کہ کہا جاتا ہے کہ یہ تالاب تقریباً 200 سال پرانا ہے جب پشاور پر سکھوں کی حکمرانی تھی اور اسی گورکھ نات کے نام سے پشاور کی تاریخی گور کھٹڑی تحصیل میں مندر بھی موجود ہے۔
ابراہیم کہتے ہیں کہ تحصیل گور گھٹڑی میں کنویں کے اثار بھی موجود ہیں اور یہ بھی مشہور ہے کہ اس زمانے میں ہندؤں کا یہ عقیدہ تھا کہ گورکھ نات اس کنویں میں ڈبکی لگا کر ورسک روڈ کے گورکھ ڈگی کے تالاب میں نکل آتے تھے۔