ایک وفاقی جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پیدائشی شہریت پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کو روک دیا ہے، جو ان کی انتظامیہ کے سخت لائن ایجنڈے کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔
یہ فیصلہ جمعرات کو آیا، جس کے تحت ٹرمپ کے ایک متنازعہ ایگزیکٹو آرڈر پر 14 دن کا حکم امتناعی دیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے اس فیصلے پر اپنے دوسرے دورِ صدارت کے آغاز کے چند گھنٹوں بعد دستخط کیے تھے۔
امریکی ریاست واشنگٹن میں سماعت کے دوران ڈسٹرکٹ جج جان کوفینور، جو 40 سال سے زیادہ عرصے سے عدالت میں خدمات انجام دے رہے ہیں، نے اس حکم کو ’واضح طور پر غیر آئینی‘ قرار دیا۔
رپبلکن پارٹی کے صدر رونالڈ ریگن کی جانب سے مقرر کیے جانے والے کوفینور کا کہنا تھا کہ 'میں چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بینچ پر ہوں، مجھے کوئی اور کیس یاد نہیں جہاں پیش کیا گیا سوال اتنا واضح ہو۔
ٹرمپ نے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے، اور ان کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ ایگزیکٹو آرڈر ’امریکی آئین کی درست تشریح‘ کرتا ہے۔ وزارتِ انصاف نے اس متنازعہ اقدام کا عدالت میں دفاع کرنے کا عہد کیا ہے۔
ٹرمپ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ان کی انتظامیہ ’واضح طور پر‘ فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی، جبکہ محکمہ انصاف نے کہا ہے کہ وہ ایگزیکٹو آرڈر کا دفاع کرے گا، جس کے بارے میں ایک ترجمان نے کہا کہ یہ امریکی آئین کی ’صحیح تشریح‘ کرتا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم عدالت اور امریکی عوام کے سامنے مکمل دلائل پیش کرنے کے منتظر ہیں جو ہمارے ملک کے قوانین کے نفاذ کے لیے بے چین ہیں۔‘
14 ویں ترمیم کے تحت امریکی آئین میں پیدائشی شہریت شامل ہے جو امریکی سرزمین پر پیدا ہونے والے کسی بھی شخص کو شہری قرار دیتا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے: ’ریاستہائے متحدہ امریکہ میں پیدا ہونے والے یا سکونت اختیار کرنے والے اور اس کے دائرہ اختیار کے تابع تمام افراد ریاستہائے متحدہ امریکہ اور اس ریاست کے شہری ہیں جہاں وہ رہتے ہیں۔‘
ٹرمپ کا حکم اس خیال پر مبنی تھا کہ امریکہ میں غیرقانونی طور پر یا ویزا پر موجود کوئی بھی شخص ملک کے ’دائرہ اختیار کے تابع‘ نہیں ہے، اور لہذا اسے اس زمرے سے خارج کر دیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کوفینور نے محکمہ انصاف کے اٹارنی بریٹ شومیٹ کو ٹرمپ کے حکم کو آئینی قرار دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
کوفینور نے کہا: ’سچ کہوں تو مجھے یہ سمجھنے میں دشواری ہو رہی ہے کہ بار کا ایک رکن کس طرح واضح طور پر کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک آئینی حکم ہے۔
’یہ واقعی میری سمجھ سے بالاتر ہے۔‘
یہ فیصلہ 22 ریاستوں، دو شہروں اور متعدد شہری حقوق کے گروپوں کی جانب سے دائر مقدمات کی بھرمار کے بعد سامنے آیا ہے۔
قانونی کارروائیوں میں حصہ لینے والی ریاستوں کی طرف سے اس کی ستائش کی گئی۔
ٹرمپ کے فیصلے کو قانونی طور پر چیلنج کیے جانا کوئی حیرت کی بات نہیں تھی، اور ٹرمپ نے اعتراف کیا تھا کہ جب انہوں نے حکم نامے پر دستخط کیے تھے تو اس کا امکان تھا۔
انہوں نے بار بار اور غلط طور پر اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کے پاس پیدائشی شہریت ہے۔
درحقیقت کینیڈا اور میکسیکو سمیت 30 سے زائد دیگر ممالک میں بھی یہ موجود ہے۔