جب 2021 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے واشنگٹن میں امریکی کانگریس اور کیپیٹل ہل کے دیگر اہم دفاتر پر باقاعدہ حملہ کیا، اس وقت اگر کوئی یہ کہتا کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ امریکی صدر بنیں گے تو شاید یہ دیوانے کا خواب لگتا۔
امریکی عدالتوں کے چکر لگاتے، کرپشن اور جنسی سکینڈلز کا سامنا کرتے ٹرمپ کو دیکھ کر اگر کوئی جہاندیدہ تجزیہ نگار یہ پیش گوئی کرتا کہ یہ دلچسپ شخصیت دوبارہ وائٹ ہاؤس کی مکین ہو گی، تو شاید سننے والے اس تجزیہ نگار کا مذاق اڑاتے لیکن کسی دیوانے کے بھیانک خواب کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بن گئے ہیں۔
اس وقت دنیا ڈونلڈ ٹرمپ سینڈروم سے گزر رہی ہے، یعنی وہ ممالک جن کے معاملات میں ٹرمپ کے نظریات کا کوئی تعلق نہیں، وہ بھی ٹرمپ کے پاپولر بیانیے کی گرمی محسوس کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کا پاپولر بیانیہ کسی ملٹری ڈکٹیٹر کے قوم سے خطاب کی طرح سیاہ اور سفید نظر آتا ہے۔
ٹرمپ بیانیہ امیگرینٹس مخالف، نسلی رواداری مخالف، سوشلزم مخالف، اور جنسی آزادی مخالف ہے، جس میں فیصلہ سازی کے مرکز میں امریکہ کے امیر ترین افراد بیٹھے ہیں۔
انتہائی دائیں بازو کی سیاسی ہوائیں ایک عرصے سے یورپ میں چل رہی تھیں، لیکن ٹرمپ کی آمد اور ان کے ساتھی ایلون مسک کی حالیہ سیاسی سرگرمیوں کے باعث یہ ہوائیں اب طوفانی جھکڑ میں تبدیل ہو رہی ہیں۔
ایلون مسک کھل کر یورپ میں قدامت پسند انتہائی دائیں بازو کی تحریکوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ٹرمپ کی حلف برداری میں جرمنی سے جس واحد سیاسی لیڈر نے شرکت کی، وہ آلٹرنیٹو فار جرمنی نامی پارٹی کی لیڈر ٹینو کروپالا ہیں۔
یہ وہی نئی مگر حال ہی میں طاقت حاصل کرنے والی سیاسی جماعت ہے، جسے خود جرمن عدالت شدت پسند اور ملکی سلامتی کے لیے ممکنہ خطرہ قرار دے چکی ہے۔
جرمنی میں یہ پہلی بار ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کسی قومی پارلیمانی انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت نے کامیابی حاصل کی ہے۔
2015 میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت نے شام سے ہزاروں نقل مکانی کرنے والوں کا استقبال یہ کہتے ہوئے کیا تھا: ’ہم یہ کر سکتے ہیں!‘، مگر اب یہ نعرہ ’ہم یہ نہیں کر سکتے!‘ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ جرمنی کا نقل مکانی کرنے والوں کے لیے استقبالیہ کلچر اب ان کی ملک بدری کی بحث میں تبدیل ہو گیا ہے۔
چند ہفتوں میں جرمنی کے نئے چانسلر اور نئی ریاستی پالیسی کا اعلان ہو جائے گا، لیکن غالب امکان یہ ہے کہ جرمنی کی اندرونی اور بیرونی سیاست پر قدامت پسند اور دائیں بازو کا اثر بھاری رہے گا۔
کیا یورپ کی بس ہو گئی ہے؟
گزشتہ برس نیدرلینڈز کے انتخابات میں معروف اسلام مخالف سیاستدان گیرٹ ولڈرز کی کامیابی نے جیسے باقاعدہ اعلان کر دیا کہ اب یورپ کی سیاست میں امیگرنٹس، بالخصوص مسلمان امیگرنٹس مخالف نعرہ، ووٹرز میں سب سے زیادہ پرکشش نعرہ ہو گا۔
اگرچہ گیرٹ ولڈرز نے حکومت نہیں بنائی، لیکن بطور پریشر گروپ ان کی پارٹی بااثر ہے۔
اس وقت یورپی یونین کے سات رکن ممالک: کروشیا، جمہوریہ چیک، فن لینڈ، ہنگری، اٹلی، نیدرلینڈز، اور سلواکیہ کی حکومت میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں شامل ہیں۔
غالب امکان ہے کہ جرمنی اور پھر فرانس بھی اس پاپولر رائٹ ونگ کا حصہ بن جائیں۔ اور اگر یہاں دائیں بازو کی حکومتیں نہ بھی بن سکیں، تب بھی یورپ کی مجموعی پالیسی کا جھکاؤ قدامت پسندی کی طرف یقینی ہے۔
یورپ میں بنیاد پرست یا قدامت دائیں بازو کی جماعتوں کے عروج کی ایک بڑی وجہ یورپ میں ابھرتے ہوئے معاشی، سماجی، سیاسی اور سلامتی کے مسائل ہیں۔ یورپی عوام سمجھتے ہیں کہ یورپ کی لبرل جماعتیں ان کے یہ مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
لبرل جماعتوں پر الزام ہے کہ انہوں نے دنیا بھر، بالخصوص اسلامی ممالک سے امیگرنٹس کے لیے یورپ کے دروازے کھول دیے، جس کا براہ راست اثر یورپ کی معیشت، وسائل، اور تاریخی مذہبی شناخت پر پڑا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آسان لفظوں میں، یہ دائیں بازو کی تحریکیں مقامی یورپی افراد میں یہ نظریہ ابھار رہی ہیں کہ مسلمان امیگرنٹس کی آمد اور ان کی آبادی میں اضافے کے باعث سفید یورپی نسل اور ان کی کرسچن مذہبی شناخت کو خطرہ ہے۔
اس نظریے میں کمزور معیشت اور بے روزگاری جیسے عوامل کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دائیں بازو کی جماعتیں اسلامی شدت پسندی اور مسلمانوں کے سماجی نظریات کو یورپ کے لیے خطرہ گردانتی ہیں۔
ٹوئٹر (ایکس) کے ایلون مسک اور فیس بک کے مارک زکربرگ کا یورپ میں دائیں بازو کی سیاست پر اثر اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ تمام دائیں بازو کی یورپی جماعتوں کی ایکس، انسٹاگرام، اور فیس بک پر سوشل میڈیا مہم انتہائی اثر انگیز ہے۔
یہ تمام سفید نسل پرست جماعتیں سوشل میڈیا کو بطور آلہ کامیابی سے استعمال کر رہی ہیں، جبکہ لبرل اور سینٹر کی جماعتیں اس کا عشر عشیر بھی نہیں کر پا رہیں۔
کشتی میں بیٹھ کر یونان اور پھر وہاں سے اٹلی پہنچنے والوں نے خطرناک راستوں کا سامنا تو سوچا ہو گا، لیکن شاید یہ کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ یہ یورپ اب وہ یورپ نہیں رہا۔
یہاں تعلیم، تفریحی سفر، گھر والوں سے ملاقات یا سیاسی پناہ کا بہانہ بنا کر آنے والوں کو اپنا پاسپورٹ پھاڑنے سے پہلے ہزار بار سوچنا ہو گا۔ غیر قانونی تارکین وطن کے سر پر ملک بدری کی تلوار لٹکتی رہے گی، اور قانونی تارکین وطن کو مختلف حیلے بہانوں سے تنگ کیا جائے گا۔
جس راستے پر یورپ کی اندرونی سیاست گامزن ہے، چند ماہ کی بات ہے کہ یہ امیگرنٹس مخالف مباحثے پالیسی کی شکل اختیار کر لیں گے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔