پاکستان میں سائیکل چلانے کا رجحان بڑھ رہا ہے لیکن بنانے کا نہیں

پاکستان میں دیگر شعبوں کی طرح سائیکل سازی بھی کئی چیلنجوں سے نبردآزماں ہے۔

اسلام آباد کے قدرے مہنگے تجارتی علاقے بلیو ایریا کے ایک دکاندار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ان کے خیال میں سائیکل چلانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

عبدالکریم گذشتہ آٹھ سال سے سائیکل کی دکان میں کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تو کئی گاہک ڈاکٹروں کے کہنے پر سائیکل لینے آتے ہیں لیکن مجموعی طور پر لوگوں میں سائیکل کا شوق پروان چڑھ رہا ہے۔

البتہ پاکستان میں سائیکلیں بھی دیگر اشیا کی طرح مہنگی ہوئی ہیں۔ چار سال کے بچے کی چھوٹی سائیکل  کی قیمت بھی 20 ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے۔

پاکستان میں دیگر شعبوں کی طرح سائیکل سازی بھی کئی چیلنجوں سے نبردآزماں ہے۔ عبدالکریم کے مطابق ’اس میں نیی ٹیکنالوجی سے استفادہ نہ کرنے کی وجہ سے سہراب جیسے ماضی کے بڑے نام اب بھی بھاری سائیکل بنا رہیں ہیں جو چین کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتی ہیں۔‘

سائیکلوں میں پاکستان میں ابھی ہائبرڈ سائیکلوں کا رجحان نہیں بڑھا ہے اس کی بڑی وجہ ان کی آسمان سے باتیں کرتیں قیمتیں ہیں۔

اس سال جنوری میں شائع ’پاکستان میں سائیکل کی صعنت کے زوال‘ پر ایک تحقیقی مقالے میں نادیہ احمد لکھتی ہیں کہ بدقسمتی سے سائیکل کی برآمدات میں پاکستان کا دنیا میں حصہ تقریبا صفر ہے جبکہ چین تقریبا ایک ارب ڈالر کی برآمدات کے ساتھ عالمی مارکیٹ پر حاوی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ پاکستانی سائیکلوں کی برآمدات میں اضافہ نہ صرف اس شعبے کو کامیاب بنانے بلکہ مقامی سائیکل انڈسٹری میں اعلیٰ اور اچھے معیار کی پیداوار کے ذریعے حکومت کے لیے سیلز ٹیکس ریونیو میں اضافے کے لیے بھی ضروری ہے۔

وہ لکھتی ہیں کہ پاکستانی سائیکل انڈسٹری سالانہ 1.45 ملین سائیکلیں تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن 2002-2003 کے دوران 658,000 سائیکلیں تیار کی گئیں جو صرف 45 فیصد صلاحیت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اس عرصے کے دوران 4 لاکھ 30 ہزار سائیکلیں پاکستان سمگل کی گئیں۔

مندرجہ ذیل جدول پاکستانی سائیکل مارکیٹ کا ایک مختصر جائزہ پیش کرتا ہے اور مجموعی فروخت، مارکیٹ کا سائز، ملازمت کرنے والی افرادی قوت اور وینڈرز کی تعداد کو ظاہر کرتا ہے:

1999 میں پہلی بار پاکستان سے 11 ہزار ڈالر مالیت کی سائیکلیں برآمد کی گئیں۔ پاکستان سائیکلوں کا ایک بڑا مینوفیکچرر ہے لیکن بھارت اور چین جیسے ممالک کے مقابلے میں فی کس استعمال کم ہے۔

2003 میں سائیکلوں کی کل بین الاقوامی تجارت 2,958 ملین ڈالر تھی، جس میں گذشتہ تین سالوں کے دوران اوسطا 2.6 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ چین 2003 کے دوران 778 ملین ڈالر کی مجموعی برآمدات کے ساتھ سب سے بڑا برامد کندہ تھا۔

معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان سائیکل کی عالمی مانگ پوری کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اگر وہ اس صعنت میں تھوڑی سرمایہ کاری کرے اور مراعات دے۔ عبدالکریم کہتے ہیں کہ ٹیکسوں میں کمی سے شاید سائیکل کو عوامی سواری بنایا جاسکتا ہے۔

مقالے کے مطابق پاکستانی سائیکل مینوفیکچررز نے کم قیمت چینی سائیکلوں کی وجہ سے مقامی مارکیٹوں کا 25 فیصد کھو دیا ہے۔ ’افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی چھتری تلے ہر ماہ ہزاروں چینی سائیکلیں پاکستان لائی جاتی ہیں جو سمگلنگ ہے۔‘

پاکستانی سائیکلوں کی سالانہ فروخت سات سے آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن چینی سائیکلوں کی آمد کی وجہ سے ان اعداد و شمار میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ مقامی سائیکل مینوفیکچررز کو خاص طور پر بلوچستان اور سرحد کے صوبوں میں مشکل کا سامنا ہے کیونکہ ان مارکیٹوں میں سمگل شدہ چینی سائیکلوں کی بھرمار ہے۔

کراچی سائیکل مارکیٹ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری عبدالسلام نے نادیہ احمد کو بتایا کہ دیسی سائیکلوں کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں دستیاب سائیکلوں سے کہیں زیادہ ہے جس کی وجہ سے ملک اپنی مصنوعات کو اس مارکیٹ میں لانے سے قاصر ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی ساختہ سائیکلیں درآمدی سائیکلوں کے مقابلے میں چار گنا مہنگی ہیں اور غیر مسابقتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اب تک کسی بھی برآمد کنندہ نے ملک سے برآمد کے بارے میں نہیں سوچا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی مینوفیکچررز کو ان پٹ کی زیادہ قیمت، بجلی کی قلت اور عدم دستیابی اور جدید ٹیکنالوجی کی کمی جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔

الماتی مقابلہ 

ادھر پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن کا کہنا ہے کہ وہ ایک مضبوط دستے کے ساتھ الماتی مقابلے کی تیاری کر رہی ہے۔

پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن نے آٹھ سائیکل سواروں پر مشتمل اپنی مضبوط ٹیم کا اعلان کیا ہے جو 6 سے 12 جون 2024 تک الماتی، قازقستان میں ہونے والے مقابلے میں قوم کی نمائندگی کرے گی۔

ایک بیان کے مطابق سخت انتخابی عمل کے بعد، جس میں کراچی اور اسلام آباد میں ٹرائلز شامل تھے، فیڈریشن کو اپنے منتخب کھلاڑیوں کی صلاحیتوں پر اعتماد ہے۔

انتخاب کا عمل تمام صوبوں کے کھلاڑیوں کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیزائن کیا گیا تھا، جس میں شرکت کے یکساں مواقع کو یقینی بنایا گیا تھا۔

نتیجے کے طور پر، ٹیم مختلف زمروں کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہے، بشمول انڈر 3 ، جونیئر اور ماسٹر کیٹیگری شامل ہیں۔

 ٹیم میں علی الیاس، امجد خلیل، عبدالوہاب، محمد اسماعیل انور، نثار علی، شایان رضوان، دانش نسیم، اور عاطف حسین قاضی ٹیم کو اہم مدد فراہم کر رہے ہیں جبکہ اسسٹنٹ ساجد اور رضوان ہیں۔

خاص اہمیت علی الیاس کو دی جا رہی ہے، جنہوں نے گذشتہ سال کے ایونٹ میں ماسٹر کیٹیگری میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل