’مجھے لگتا ہے کہ پاکستانی لوگ کہیں بھی پارٹی کر سکتے ہیں۔ یہاں کے لوگ ناچنا پسند کرتے ہیں۔ خاص طور پر مرد۔ میں دیکھتی ہوں کہ وہ کہیں بھی سڑک کنارے گاڑی کھڑی کرکے ریڈیو پر گانے چلاتے ہیں اور سب باہر نکل کر ناچنا شروع کر دیتے ہیں۔‘
یہ کہنا ہے 52 سالہ خاتون برطانوی سیاح کلئیر کا جو چھ سالوں میں 20 ممالک کا سفر کرنے کے بعد 2019 میں پاکستان آئیں اور ابھی لاہور میں مقیم ہیں۔
کلیئر کا تعلق ویلز، برطانیہ سے ہے۔ ویسے تو یہ مصوری بھی کرتی ہیں مگر انہیں عوام کی فلاح و بہبود کے کام کا شوق ہے۔ 2015 میں وہ اپنی سیاہ رنگ کی سائیکل، جسے وہ ’بلیک بیٹی‘ کہتی ہیں، پر دنیا کی سیر کو نکلیں۔
انار کلی بازار کے پار سڑک کنارے حافظ جوس کارنر پر بیٹھ کر مسمی کے جوس کا مزا لیتے ہوئے کلئیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنے سیاحتی سفر کی کہانی سنائی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ 2019 میں پاکستان آئی تھیں اور ستمبر 2020 سے وہ لاہور میں ایک دوست کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’ویسے تو یوں لگتا ہے کہ میں دنیا کی سست ترین سائیکلسٹ ہوں جسے پاکستان پہنچنے میں چھ سال لگے۔ پاکستان آنے سے پہلے میں نے جورجیا میں تبلیسی اور دو برس کے لیے چین میں بطور استاد انگریزی پڑھائی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’میرے اس سفر میں کسی کا مالی تعاون شامل نہیں ہے۔ جب میرے پاس پیسے ختم ہو جاتے ہیں تو میں نوکری تلاش کرتی ہوں۔ خاص طور پر بچوں کے سکول میں انگریزی پڑھانے کی نوکری۔‘
کلئیر سوشل ورک بھی کرتی ہیں اور انہوں نے 2015 میں یونان میں اپنے قیام کے دوران ترکی سے یونان آنے والے پناہ گزینوں کے لیے دو ماہ کے لیے کام کیا، اور پھر ترکی جا کر وہاں کے مہاجرین کی رہائش اور نوکری ڈھونڈنے میں مدد کی۔
کلئیر نے بتایا کہ پاکستان پہنچنے سے پہلے انہوں نے 20 ممالک کا سفر کیا تھا۔ ’میری سیاحت آسان نہیں تھی میں نے برطانیہ سے نیدر لینڈز پہنچنے کے لیے فیری میں سفر کیا۔ اس کے بعد جب میں آزربائیجان پہنچی تو وہاں کیسپین سمندر کو عبور کرنے کے لیے میں ایک مال بردار جہاز پر سوار ہوئی۔ اس کے علاوہ میں نے بہت سے ٹرک ڈرائیوروں کے ساتھ بھی سفر کیا۔ یہ ایک بہت اچھا تجربہ تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ بتاتی ہیں کہ وہ چین سے پاکستان آنا چاہتی تھیں مگر چینی حکام سائیکل کر سرحد پار کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ لہذا تقریباً 175 کلومیٹر کا راستہ انہوں نے بس کے ذریعے طے کیا۔ ’میں چین کے راستے خنجراب پاس پہنچی اور پھر قراقرم ہائی وے سے سائیکل چلاتے ہنزہ، گلگت بلتستان سے ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچ گئی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ انہیں پاکستان بے انتہا پسند آیا: ’میرے خیال میں پاکستان کے حوالے سے سب سے اچھی چیز جو مجھے لگی وہ یہاں کے پہاڑ ہیں جو اتنے شاندار اور دیوقامت ہیں کہ آپ انہیں دیکھتے رہ جاتے ہیں۔‘
انہوں نے پاکستانیوں کی مہمان نوازی کی تعریف کرتے ہوئے کہا: ’یہاں کے لوگ شاید اس سیارے پر سب سے زیادہ مہمان نواز ہیں۔ میں اگر کہیں کسی پریشانی میں کھڑی ہوں تو اردگرد کے لوگ فوراً میری مدد کو پہنچ جاتے ہیں اور ایسا تقریباً روزانہ ہوتا ہے۔ وہ مجھے چائے کی پیشکش کرتے ہیں اور کبھی کبھار کھانے کی بھی اور یا پھر ان کے گھر پر ٹھہرنے کی۔ میں ان کی اس مہمان نوازی کا شکریہ الفاظ میں ادا نہیں کر سکتی۔ بس یہی کہہ سکتی ہوں کہ بہت شکریہ۔‘
کلئیر نے یہ بھی بتایا کہ وہ سبزی خور ہیں اور اس حوالے سے بھی انہیں کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور انہیں پاکستان کا کھانا بھی بہت پسند ہے۔ خاص طور پر چنے، اور فروٹ چاٹ۔ چائے البتہ وہ بغیر دودھ کے پیتی ہیں۔ پاکستانی موسیقی میں انہیں رباب کی موسیقی پسند آئی۔
ساتھ ساتھ وہ یہاں کی آوارہ بلیوں اور کتوں کی دیکھ بھال بھی کرتی ہیں اور ضرورت پڑے تو سڑک پر پڑے زخمی یا بیمار جانوروں کو اپنی سائیکل پر ہسپتال بھی چھوڑ کر آتی ہیں۔
کلئیر کے پاکستان میں قیام کی ایک اور خاص بات یہ ہے۔ پاکستان پہنچ کر یہ سائیکل ٹرک آرٹ کا چلتا پھرتا نمونہ بن چکی ہے اور اب اس کا نام ہے ’بیٹی، پہاڑوں کی ملکہ‘ ہے۔
وہ بتاتی ہیں: ’جب میں پہلی بار پاکستان آئی میں خنجراب پاس پر تھی کہ ایک راہ گیر مجھ سے ملنے وہاں آیا ان کا نام مسٹر خان تھا۔ باتوں میں معلوم ہوا کہ وہ سکاٹ لینڈ میں رہتے ہیں اور اس طرح میری ان سے دوستی ہوگئی۔ میں نے انہیں اپنے ٹرک آرٹ کے شوق کا بتایا۔ میں اپنی سائیکل کو پینٹ کروانے کا تو پہلے سے ہی سوچ رہی تھی مگر جب میں نے مسٹر خان سے ذکر کیا تو وہ مجھے ایک ٹرک آرٹسٹ کے پاس لے گئے اور تحفے کے طور پر میری سائیکل پینٹ کروا دی۔ اب میرے پاس میرے دوست مسٹر خان کی طرف سے اس سائیکل پر ہوئے ٹرک آرٹ کی صورت میں ایک تحفہ ہے اور پاکستان کی ایک مستقل یادگار بھی۔‘