امریکہ کے شہر نیویارک میں، جو آج کل مرکز نگاہ ہے، پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات ہوئی۔ یہ پچھلے چار مہینوں میں دوسری ملاقات تھی، پہلی بار دونوں رہنما جولائی میں ملے تھے۔
نیویارک میں ٹرمپ نے عمران خان سے ملاقات میں تسلیم کیا کہ ان سے پہلے کی امریکی قیادت نے پاکستان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، ساتھ ہی انہوں نے ایک مرتبہ پھر کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیشکش بھی کر ڈالی۔
ملاقات کے حوالے سے امریکہ میں مقیم سفارتی تجزیہ کار کہتے ہیں ملاقات مثبت تھی یا نہیں؟ اس کی تہہ میں جائے بغیر یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان اب ’ڈو مور‘ کے دور سے نکل چکا ہے۔
نیو یارک کے ہوٹل انٹر کانٹینینٹل بارکلے میں پاکستان اور امریکی سربراہان کی ملاقات طے کی گئی۔ انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار کے مطابق جب پاکستانی وفد وہاں پہنچا تو سب سے پہلے صحافیوں کو اندر آنے دیا گیا اور سکیورٹی کلئیرنس کی گئی۔ دونوں سربراہان جس ہال نما کمرے میں موجود تھے وہاں امریکی اور پاکستانی میڈیا موجود تھا۔
سامنے کی دو نشستوں پر ٹرمپ اور عمران خان تشریف فرما تھے۔ دونوں سربراہان کے دائیں اور بائیں اُن کے وفود بیٹھے تھے۔ امریکی صدر کے بیٹھنے کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ کافی آرام دہ موڈ میں ہیں جبکہ اس کے برعکس عمران خان قدرے دباؤ میں نظر آئے۔
سینئیر صحافی و تجزیہ کار انور اقبال نے کہا، ’وزیراعظم پہلی ملاقات میں زیادہ پُراعتماد تھے لیکن صدر ٹرمپ سے دوسری ملاقات میں عمران خان تھوڑے دباؤ میں محسوس ہو رہے ہیں۔‘
شاید اسی لیے صدر ٹرمپ نے انہیں اعتماد دلانے کی خاطر مشترکہ پریس ٹاک میں ایک سوال کے جواب میں کہا، ’۔۔۔ مجھے پاکستان اورعمران خان پر اعتماد ہے۔ نیویارک میں میرے بہت سے پاکستانی دوست ہیں، جو سمارٹ ہیں۔ میں مدد کرنا چاہتا ہوں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا، ’میرے بھارت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ اگر وہ (دونوں فریقین) چاہیں تو میں (کشمیر کے معاملے میں) مدد کرسکتا ہوں۔‘
وزیراعظم عمران خان پہلی ملاقات میں گہرے نیلے جبکہ اس مرتبہ سیاہ رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس تھے، اسی طرح پہلی ملاقات میں ان کے ہاتھ میں تسبیح نہیں تھی جبکہ پیر کو ہونے والی دوسری ملاقات میں ان کے ہاتھ میں تسبیح تھی اور وہ کچھ پڑھ بھی رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جرمن میڈیا سے وابستہ صحافی مونا کاظم نے تبصرہ کیا، ’امریکی صدر کے ڈپلومیٹ بھی ہیں اور اب وہ سفارت کاری سیکھ چکے ہیں۔ اس لیے انہوں نے پاکستان کے حق میں بیان دے کر پاکستان کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے اور اتوار کو بھارت کے جلسے میں شرکت کر کے انہیں بھی خوش کر دیا۔‘
اس سے قبل نیویارک میں کونسل آن فارن ریلیشنز سے خطاب کے دوران عمران خان نے ٹرمپ کی جانب سے دیے گئے ریڈیکل (انتہا پسند) اسلام کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا اسلام شدت پسند نہیں، اسلام صرف ایک ہے۔
امریکی صدر نے اتوار کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ہیوسٹن میں ’ہاؤڈی مودی‘ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ’امریکہ اور بھارت انتہا پسند اسلامی دہشت گردی سے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں۔‘
کونسل آن فارن ریلیشنز سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا، ’جیسا کہ میں نے کل ریڈیکل اسلام کے بارے میں سنا تو میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسلام صرف ایک ہے۔ اسلام وہ ہے جو پیغمبر نے ہمیں سکھایا۔‘ تاہم یہ بات انہوں نے صدر ٹرمپ کے سامنے نہیں اٹھائی۔
نیویارک میں مقیم سینیئر تجزیہ کار میاں عظیم نے کہا پاکستان کی سفارت کاری اتنی مضبوط نہیں جتنی ہونی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا 40 سال میں اگر کوئی پاکستانی سربراہ بے دھڑک بولا ہے تو وہ ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کو اقوام متحدہ میں بولتے دیکھا ہے۔
انہوں نے کہا، ’عمران خان اگر تقریر مکمل پڑھیں گے اور فی البدیہہ نہیں بولیں گے تو بات بن جائے گی اور ہو سکتا ہے کوئی بڑی پیش رفت بھی ہو جائے لیکن اگر وہ جلسے کے سٹائل میں بے دھڑک بولے تو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔‘
سفارتی ذرائع نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ دفتر خارجہ نے وزیراعظم کی اقوام متحدہ میں تقریر کے اہم پوائنٹس بنائے ہیں، جس کے بعد تقریر کسی تیسرے مگر اس شعبے میں ماہر شخص نے لکھی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان تیار شدہ تقریر پڑھیں گے یا عین موقع پر فی البدیہہ پڑھنے کی کوشش کریں گے۔
سفارتی حلقوں میں یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ امریکی صدر سے ملاقات میں پاکستان نے افغان طالبان مذاکرات کی بحالی کے لیے دوبارہ پیشکش کی۔ اس حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ڈھکے چُھپے الفاظ میں کہا، ’ہو سکتا ہے وزیراعظم عمران خان سے امریکی صدر کی ایک اور ملاقات ہو اور شاید ہم کوئی خوش خبری بھی سُنا دیں۔‘
سفارتی حلقوں کے مطابق یہ خوش خبری افغان طالبان کی امریکہ سے مذاکرات کی بحالی ہو سکتی ہے۔