تیانانمن سکوائر کے 35 سال: مزاحمت کا استعارہ ’ٹینک مین‘ کہاں گیا؟

فوجی طاقت کا سامنا کرنے والے اس شخص کے بارے میں چینی میڈیا میں بات تک نہیں کی جا سکتی اس طرح 35 سال بعد بھی وہ بہادر شخص ایک معمہ ہی بن کر رہ گیا ہے۔

بیسیوں صدی کی مشہور ترین تصاویروں میں سے ایک ٹینکوں کی قطار کے اس چینی شخص کی بن گئی جو تن تنہا فوجی ٹینک کے سامنے کھڑا ہوا اور اسے رکنے کا اشارہ کیا۔ وہ شخص اور اس کی یہ تصویر مزاحمت کا استعارہ بن کر رہ گئی ہے۔

یہ منظر چین کے دارالحکومت بیجنگ کے تیانانمن سکوائر پر چار جون 1989 کو ہونے والے قتل عام کے دوران عکس بند کیا گیا تھا جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

لیکن حیرت انگیز طور پر آج تک نہ تو اس شخص کی شناخت واضح ہو سکی ہے، نہ ہی یہ معلوم ہے کہ ان کا انجام کیا ہوا۔

ایک برطانوی میگزین (ٹیبلائیڈ) میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ٹینک مین 19 سال کا طالب علم تھا جس کا نام وانگ ویلن تھا لیکن کسی معتبر ذریعے سے اس کی تصدیق آج تک نہیں ہو سکی۔ دہائیوں بعد اس کہانی کے مصنف نے اعتراف بھی کیا تھا کہ اس نے یہ نام خود ایجاد کیا تھا۔

امریکہ میں مقیم انسانی حقوق کے کارکن ینگ جینلی نے جو تیانانمن سکوائر پر ہونے والے احتجاج میں بھی شامل تھے 2019 میں ایک پٹیشن کے ذریعے چینی صدر شی جن پنگ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ٹینک مین سے متعلق حقائق عوام کے سامنے لائیں کہ ’ٹینک مین‘ کے ساتھ کیا ہوا تھا، لیکن اس بابت پھر کوئی پیش رفت کبھی نہیں ہوئی۔

4 جون 1989 کو ہوا کیا تھا؟

بیجنگ کے تیانانمن سکوائر پر چار جون کو جمہوریت کے حق میں طلبہ مظاہرین کے احتجاج کے دوران پیپلز لبریشن آرمی کے فوجیوں نے بےدردی سے سینکڑوں شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا جس سے پوری دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔

حکمراں کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ نے دارالحکومت میں مارشل لا کے اعلان کے بعد چھ ہفتوں یعنی 15 اپریل سے 4 جون تک جاری رہنے والے مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج کو طلب کیا تھا۔

پندرہ اپریل کو اصلاح پسند جماعت کے رہنما ہو یاوابنگ کی ہلاکت کے بعد دس لاکھ سے زیادہ چینی نوجوانوں نے بھوک ہڑتال کرنے، ریاستی بدعنوانی کے خاتمے، زیادہ شفافیت اور شہری آزادیوں میں اضافے کے مطالبے کے لیے تیانانمن سکوائر پر قبضہ کیا تھا۔

ابتدائی طور پر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے چینی حکام نے عدم تشدد کے طریقوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی گئی لیکن پھر طلبہ کو یہ دھمکی دی گئی کہ ان کے پاس یہ جگہ چھوڑنے کے لیے ایک گھنٹہ ہے لیکن عینی شاہدین کے مطابق اس کے محض پانچ منٹ بعد ہی فوج نے خودکار رائفلوں سے ہجوم پر فائرنگ شروع کر دی۔

مورخین کے مطابق قریبی عمارتوں کی چھتوں سے سنائپرز نے مظاہرین پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ فوجیوں نے زخمیوں کو رائفلوں سے مزید تشدد کا نشانہ بھی بنایا، جس کے بعد بکتربند گاڑیاں مظاہرین پر چڑھ دوڑیں جنہوں نے انسانی زنجیر بنانے والے طلبہ کو روند ڈالا۔ خیال ہے کہ لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے بلڈوزروں کا استعمال کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چین نے سرکاری طور پر اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تین سو سے کم بتائی جبکہ موقعے پر موجود چینی ریڈ کراس کا دعویٰ تھا کہ مرنے والوں کی حقیقی تعداد دو ہزار سات سو کے قریب تھی۔ اس وقت چین میں برطانیہ کے سفیر سر ایلن ڈونلڈ نے ایک بیان میں تھا کہ ہلاکتوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

چین کی کمیونسٹ پارٹی کا موقف تھا کہ یہ قتل عام ’انقلابی فساد‘ سے بچنے کے لیے ضروری تھا تو دوسری جانب امریکہ اور برطانیہ نے اس کی بھرپور مذمت کی تھی۔

ٹینک مین کی تصاویر بنانے والے کون تھے اور انہوں نے کیا دیکھا؟

سفید شرٹ اور گہرے رنگ کی پینٹ میں ملبوس، دونوں ہاتھوں میں بیگ اٹھائے ایک نوجوان نے پہلے ٹینک کو ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کیا، ٹینک کو ایک جانب سے نکلنے بھی نہیں دیا اور پھر ٹینک پر چڑھ گیا۔

اس غیر معمولی لمحے کو پانچ غیر ملکی پریس فوٹوگرافروں نے ایک ہوٹل کی بالکونی سے عکس بند کیا تھا۔

‘یہ تصویر بنانے والے فوٹوگرافرز نے بعد ازاں بتایا کہ انہوں نے ’فلم کے رول کو چائے کے ڈبوں اور ’ٹوائلٹ پیپر رول‘ میں چھپا کر چین سے باہر سمگل کیا تھا۔ 

کمیونسٹ پارٹی کے سابق جنرل سکریٹری جیانگ زیمین نے بتایا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ ٹینک مین کو گرفتار کیا گیا تھا یا نہیں لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اسے قتل نہیں کیا گیا۔

چند لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ ٹینک مین تائیوان چلا گیا تھا تاہم اس کی بھی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ فوجی طاقت کا سامنا کرنے والے اس شخص کے بارے میں چینی میڈیا میں بات تک نہیں کی جا سکتی اس طرح 35 سال بعد بھی وہ بہادر شخص ایک معمہ ہی بن کر رہ گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین