مارکیٹ پر نظر رکھنے والوں کی آرا پر مبنی سروے کے مطابق پاکستان کے مرکزی بینک سے بڑے پیمانے پر توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اگلے ہفتے شرح سود میں 100 بیس پوائنٹس کی کمی کر دے گا۔
سٹیٹ بینک پیر کو ایک ایسے وقت اہم اجلاس کر رہا ہے جب ملک میں گذشتہ ماہ 30 مہینوں میں سب سے کم کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) 11.8 فیصد تک گر چکا ہے۔
شرح سود کے حوالے سے مرکزی بینک کا یہ فیصلہ بجٹ سے کچھ دن پہلے آئے گا۔
16 تجزیہ کاروں نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے سروے میں پیش گوئی کی ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان شرح سود میں 100 بیسز پوائنٹس (بی پی ایس) کی کمی کرے گا۔
سروے میں 10 تجزیہ کاروں نے 100 بی پی ایس جب کہ ایک تجزیہ کار 150 بی پی ایس اور چار نے 200 بی پی ایس کم ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔
ایک تجزیہ کار نے توقع ظاہر کی کہ بینک شرح برقرار رکھے گا۔
ادھر پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بدھ کو چین میں ایک بزنس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ گرتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر شرح سود میں کمی آئے گی۔
پاکستان میں گذشتہ دو سالوں سے اقتصادی سرگرمیاں سست ہیں کیونکہ حکومت نے تباہ حال معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آؤٹ کے تحت سخت اصلاحات نافذ کی ہیں۔
جون میں ختم ہونے والے موجودہ مالی سال میں ملک کی جی ڈی پی کی شرح نمو دو فیصد رہنے کی توقع ہے جو پچھلے سال منفی تھی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے کی توقع سے وہ اس سال شرح نمو کا ہدف 3.5 فیصد رکھے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومت رواں سال ایک مختصر مدت کے پروگرام کو مکمل کرنے کے بعد اس موسم گرما میں نئے طویل مدتی بیل آؤٹ کے لیے آئی ایم ایف سے باضابطہ طور پر رجوع کرے گی۔
اسی بیل آؤٹ پیکج سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچنے میں مدد ملی تھی۔
فنڈ نے اس سے قبل افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک سخت مالیاتی پالیسی کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیا تھا جو مئی 2022 سے 20 فیصد سے اوپر رہی اور گذشتہ سال 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔
اس کے بعد سے افراط زر کی شرح میں کمی آئی ہے جو رواں سال اپریل میں 20 فیصد اور مئی میں 11.8 فیصد سے نیچے آ گئی۔
اقتصادی تجزیہ کار عزیر یونس نے روئٹرز کو بتایا: ’مہنگائی میں مسلسل کمی اور اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ سٹیٹ بینک نے وقت سے پہلے شرح سود میں کمی نہ کرکے سمجھداری کا مظاہرہ کیا، اب اس کے پاس آئی ایم ایف کے ساتھ چیزوں کو خطرے میں ڈالے بغیر شرح سود میں کمی کرنے کی گنجائش ہے۔‘
ایک اور اقتصادی تجزیہ کار فواد بصیر نے کہا کہ بجٹ میں ٹیکس اصلاحات پر غور کیا جا رہا ہے جس کے معیشت پر بہت دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں نہ کہ صرف افراطِ زر پر۔
انہوں نے کہا کہ ’ایک بار جب اس طرح کے فیصلوں کا اثر ہائی فریکوئنسی ڈیٹا سیٹس میں واضح ہو جائے، جس کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب گفت و شنید ہو تو مرکزی بینک ممکنہ طور پر امریکی فیڈرل ریزرو سسٹم کی حکمت عملی کے مطابق ’ڈوش (نرم)‘ موقف شروع کرنے کے لیے اچھی پوزیشن میں ہو گا۔‘