سٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرح سود 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
جمعرات کو سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کیے جانے والے بیان میں بتایا ہے کہ یہ فیصلہ مہنگائی کی تازہ ترین شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے جو ’مسلسل کمی‘ کی جانب گامزن ہے۔
مرکزی بینک کے بیان کے مطابق: ’مہنگائی کا رجحان مئی میں 38 فیصد کے عروج سے اگست 2023 میں 27.4 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔‘
مانیٹری پالیسی کمیٹی کا جمعرات کو ہوا جس میں ملکی معاشی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور شرح سود میں رد و بدل نے کرنے کا فیصلہ کیا گیا جو کہ اب 22 فیصد پر برقرار رکھی گئی ہے۔
اس سے قبل 26 جون کو شرح سود میں 100 بیسس پوائنٹس یعنی ایک فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔
مانیٹری پالیسی میں مہنگائی کی رفتار کم رہنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے جبکہ کہا گیا ہے کہ انتظامی اقدامات اورزرعی پیداوار بڑھنے سے رسد کے مسائل حل ہوں گے۔
مانیٹری پالیسی میں کہا گیا ہے کہ کرنسی اور اجناس کی مارکیٹ میں سٹے بازوں کے خلاف کارروائی کی گئی جس سے مستقبل میں مہنگائی کم ہوگی۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ نجی شعبے میں قرضوں کی مانگ میں کمی آئی ہے۔
بیان کے مطابق: ’ستمبر میں مہنگائی بڑھنے کا امکان ہے البتہ ستمبر کے بعد مہنگائی میں کمی کی توقع ہے۔‘
سٹیٹ بینک کے مطابق دو ماہ میں آمدن میں 27 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ٹیکس ریٹ کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
مانیٹری پالیسی میں تجویز کیا گیا ہے کہ نجکاری کے عمل کو تیز کیا جائے۔
مانیٹری پالیسی میں کہا گیا ہے کہ جولائی 2023 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 80 کروڑ ڈالر سے زائد تھا لیکن گذشتہ چار مہینوں میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بہتر ہونا شروع ہوا ہے۔
’پاکستان نے اپنی درآمدات پر سخت پالیسی نرم کرنا شروع کی ہے جس کی وجہ سے درآمدات کا حجم بڑھ رہا ہے۔
سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے مطابق پاکستان کو اپنا امپورٹ بل اب بھی قابو رکھنے کی ضرورت ہے۔
سٹیٹ بینک کو رواں سیزن میں کپاس کی اچھی فصل حاصل ہونے کی توقع ہے اور اس کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے چاول کی بہتر پیداوار اور قیمت کے بہتر تعین کی توقع بھی ظاہر کی ہے۔
تجزیہ کاروں کی رائے
مختلف قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے لیے معیشت سے متعلق امور کور کرنے والے صحافی و تجزیہ کار حارث ضمیر کا کہنا ہے کہ ’مارکیٹ کے اکثر لوگ شرح سود برقرار رہنے کی توقع نہیں کر رہے تھے، 70 فیصد لوگوں کا کہنا تھا شرح سود ایک سے ڈیڑھ فیصد بڑھے گی جبکہ بقیہ 30 فیصد کا کہنا تھا کہ تین فیصد تک بڑھے گا۔‘
ان کے مطابق: ’گذشتہ سات دنوں کے دوران روپے کی قدر میں اچانک بہتری آئی ہے، اوپن مارکیٹ میں 33 روپے کی اور بینک کے ریٹ میں 9 روپے کی تو اس سے مرکزی بینک کا سٹانس تبدیل ہوا ہے اور شرح سود برقار رکھا گیا ہے۔
’سب سے بڑی بوروئر حکومت خود ہوتی ہے لہذا شرح سود بڑھنے سے سب سے زیادہ نقصان خود حکومت کا ہوتا ہے۔‘
سٹیٹ بینک کے مطابق افراط زر میں کمی آئی ہے کیا واقعی ایسا ہے؟ اس سوال کے جواب میں حارث ضمیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ اس معاملے مرکزی بینک کچھ زیادہ ہی آپٹمسٹک ہے کہ وہ کم ہوگا، بظاہر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اگر آپ بین الاقوامی مارکیٹ میں خام کی قیمتیں دیکھیں تو وہ بڑھ رہی ہیں اور چوں کہ ہم فنشڈ مصنوعات منگواتے ہیں تو وہ تو اور زیادہ ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہاں یہ سمگلنگ کو روکنے کے اقدامات کیے ہیں اور زخیرہ اندوزی کم ہوئی ہے اس سے کچھ اثر پڑے گا لیکن جو نقصان پہلے ہو چکا ہے وہ کہیں زیادہ ہے۔‘
مانیٹری پالیسی میں دیگر کون اہم نکات پیش کیے گئے ہیں اس سوال کے جواب میں حارث ضمیر نے بتایا کہ ’درآمدات کی نگرانی رکھنے، ڈالر کی زخیرہ اندوزی ختم کرنے، برآمدات بڑھانے خصوصاً چاول کی برآمدات بڑھانے میں مدد ملے گی اس سے علاوہ کپاس کی پیداوار میں اضافے کی پیش گوئی بہتر خبریں ہیں۔‘
معاشی امور کے ماہر اور پی ٹی آئی دور حکومت میں وزیر اعظم کے معاشی امور کے مشیر مزمل اسلم نے مانیٹری پالیسی پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’میری نظر سٹیٹ بینک نے تقریباً دو سال کے بعد پہلی بار میکرو اکنامک گراؤنڈ ریالٹی کو صحیح طور پر سمجھا ہے اور شرح سود برقرار رکھنا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے جس سے مارکیٹ میں بھی استحکام آئے گا۔‘
کیا نگران حکومت کے لیے آئی ایم ایف کا رویہ نرم نظر آ رہا ہے جو کہ حکومت بنیادی شرع سود میں اضافہ نہیں کر رہی؟ اس سوال کے جواب میں مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ ’پچھلی بار جب شرح سود بڑھا تھا تو آئی ایم ایف نے ہمیں ایک سٹینڈ بایے پروگرام دیا تھا، میری سمجھ بوجھ میں آئی ایم ایف نے اس پروگرام میں اپنی ساری شرائط منوا لی تھیں تو اگلے نو ماہ میں آئی ایم ایف کوئی نئی چیز نہیں کرائے گا سوائے ٹیکس کے اہداف اگر حاصل نہیں ہوتے تو شائد کچھ تبدیلیاں کرالے۔‘
ماشی امور کے تجزیہ کا کہنا تھا کہ پچھلے دو سالوں کے دوران عالمی مارکیٹ میں بھی قیمتیں بڑھی ہیں جس کا اثر مقامی طور پر بھی ہوا ہے تو عوام پر تابڑ توڑ مہنگائی کا برا اثر پڑا ہے۔
’حالاں کہ اس سال پچھلے سال کے مقابلے میں مہنگائی کم رہے گی لیکن پھر بھی ناقابل برداشت ہے۔‘
مانیٹری پالیسی کیا ہے اور کون بناتا ہے؟
سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی مرکزی بینک کا خود مختار مانیٹری پالیسی بورڈ طے کرتا ہے۔ مانیٹری پالیسی میں سٹیٹ بینک ملک کی معاشی صورت حال کا بھرپور احاطہ کرتا ہے۔
مانیٹری پالیسی دراصل معیشت کا ایک آئینہ ہے جو معاشی اتار چڑھاؤ کو ظاہر کرتا ہے۔
مانیٹری پالیسی میں مہنگائی کی شرح کے حساب سے شرح سود مقرر کی جاتی ہے اگر ملک میں مہنگائی یعنی افراط زر زیادہ ہو تو شرع سود کو بڑھایا جاتا ہے تاکہ لوگ خرچ کرنے کے بجائے بچت پر توجہ دیں اور خرچ کم ہونے کی وجہ سے طلب یعنی ڈیمانڈ کم ہو اور قیمتوں میں کمی ہو سکے۔
مانیٹری پالیسی کو افراط زر کنٹرول کرنے کا ایک ذریعہ بھی قرار دیا جاتا ہے جو آج گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے پیش کی ہے۔
مانیٹری پالیسی کے ساتھ ساتھ معاشی ترقی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، مالیاتی خسارہ، برآمدات و درآمدات، سرمایہ کاری، غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری، ترصیلات زر، مختلف شعبہ جات کی معاشی ترقی کی شرح جس پر سند و خدمات وغیرہ شامل ہوتے ہیں کو بھی پیش کیا جاتا ہے۔
مانیٹری پالیسی میں گذشتہ سال کے دوران افراط زر اور معیشت کو اتار چڑھاؤ کے عوامل اور وجوہات بھی بیان کی جاتی ہیں اور آئندہ عوامل سے نمٹنے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔
سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی میں معاشی کارکردگی کو بنیاد بنا کر معاشی مستقبل سے متعلق بھی پیش گوئی کی جاتی ہے۔ مانیٹری پالیسی آئندہ چند ماہ کے لیے معاشی ترقی، افراط زر، بیرونی ادائیگیاں، زر مبادلہ کے ذخائر سمیت کئی معاشی امور کی پیش گوئی بھی کرتی ہے۔ اس پیش گوئی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان ان نکات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے معاشی فیصلے مزید موثر انداز میں کر سکے۔