’پی ایم ڈی سی کی ڈیفنس کونسل میں ڈاکٹروں کے خلاف آنے والی شکایات میں سب سے زیادہ شکایتیں گائنی، پلاسٹک اور کاسمیٹک سرجری میں آتی تھیں اور جب ہم اس کی تحقیق کرتے تو معلوم ہوتا کہ وہ ڈاکٹر نہیں بلکہ عطائی ہیں۔‘
یہ بات پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی ڈیفنس کونسل کے سابق رکن اور پلاسٹک سرجن پروفیسر ڈاکٹر فرید احمد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتائی۔
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) نے فروری میں ایک اعلامیہ جاری کرکے عام ڈاکٹروں کو ایستھیٹک میڈیسن کی پریکٹس سے روکا تھا اور ایستھیٹک میڈیسن کی پریکٹس اور سرجریز کی اجازت صرف اسی مخصوص فیلڈ میں ڈگری اور ڈپلومہ رکھنے والے ڈاکٹروں کو دی گئی تھی۔
اس فیصلے کی وجہ کیا تھی؟ یہی جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے پروفیسر آف پلاسٹک اینڈ کاسمیٹک سرجری ڈاکٹر فرید احمد خان سے رابطہ کیا۔
ڈاکٹر فرید احمد خان اس وقت لاہور کے کاسمیٹک سرجری انسٹی ٹیوٹ اینڈ کلینک میں پریکٹس کرتے ہیں۔ وہ فیڈرل ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے رکن بھی ہیں اور گذشتہ 40 برس سے پلاسٹک سرجری کی فیلڈ سے وابستہ ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر فرید احمد خان نے بتایا کہ پلاسٹک سرجری کی مختلف شاخیں ہیں، جن میں سے ایک برانچ کاسمیٹک سرجری یا ایستھیٹک سرجری کہلاتی ہے۔
کاسمیٹک یا ایستھیٹک سرجری کی ٹریننگ کے لیے پہلے ایم بی بی ایس کیا جاتا ہے، اس کے بعد جنرل سرجری میں کوئی ڈگری لی جاتی ہے اور پھر کاسمیٹک سرجری کی ایک اور ڈگری لینی پڑتی ہے، جو کہ تین سے چار سال کا کورس ہوتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر فرید احمد کے مطابق: ’اتنی لمبی چوڑی اور محنت طلب ٹریننگ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کاسمیٹک سرجری میں ہم نے کسی مریض کا اپینڈیکس یا پیٹ میں درد یا اس کے ٹانسلز نہیں نکالنے کہ وہ نظر نہ آئے۔ اصل میں تو آپ نے ان کے جسم کے باہر کے حصے پر کام کرنا ہے اور ایسی سرجری میں ڈاکٹر کے پاس غلطی کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے۔ اسے ہم ’ملی میٹر سرجری‘ کہتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’کاسمیٹک سرجری کو ہم تین زمروں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک وہ جس میں لیزر وغیرہ استعمال کیے جاتے ہیں جسے ہم noninvasive procedure کہتے ہیں۔ ایک ہے جس میں کم سے کم invasive procedure ہوتا ہے جیسے آپ نے کسی کو بوٹوکس لگایا یا فلر لگایا جبکہ تیسرے پروسیجر کو سرجری کہا جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے بڑے شہروں جیسے لاہور میں عطائی یہ سارے کام کر رہے تھے۔ ’لاہور کے پوش علاقوں میں جگہ جگہ ایستھیٹک کلینکس کھل گئے تھے جہاں پر وہ لوگ جن کے پاس ایم بی بی ایس کی ڈگری بھی نہیں ہے، وہ لوگوں کی جلد اور جسم پر یہ عمل کر رہے تھے اور ان کی کوئی تربیت بھی نہیں تھی۔
’ایک شخص جو ڈسپینسر ہے اور وہ دو لیزر مشینیں رکھ لے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ جانوں سے کھیل رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ لوگ جو ڈاکٹر بھی نہیں ہیں، وہ آگے اس فیلڈ میں مزید لوگوں کو تربیت بھی دے رہے تھے۔‘
بقول ڈاکٹر فرید: ’کاسمیٹک سرجری کے حوالے سے پاکستان میں کوئی قوانین نہیں تھے، اس لیے پی ایم ڈی سی نے یہ فیصلہ لیا۔ یہ خیال غلط ہے کہ پی ایم ڈی سی نے کسی قسم کی پابندی لگائی ہے۔ پی ایم ڈی سی نے صرف یہ کہا ہے کہ وہ لوگ یہ عمل کرنے کے اہل ہیں جنہوں نے اس فیلڈ میں ڈگری لی ہے یا کوئی ڈپلومہ لیا ہے اور دوسرے نمبر پر اس میں تربیت صرف وہی کر سکتا ہے جس کے پاس پی ایم ڈی سی کا تسلیم شدہ ڈپلومہ ہو۔‘
ڈاکٹر فرید کے مطابق پی ایم ڈی سی کا یہ فیصلہ ہمارے لوگوں کے لیے انتہائی اچھا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ایک اداکارہ آئیں جنہیں کسی غیر تربیت یافتہ نے بوٹوکس لگا دیا تھا اور ان کی ایک آنکھ چھ مہینے کے لیے نیچے بیٹھ گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب سے کاسمیٹک سرجری یا ایستھیٹک میڈیسن کی فیلڈ کمرشلائز ہوئی ہے تب سے مسائل سامنے آئے۔
’ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پی ایم ڈی سی ڈاکٹروں کے لیے ایک ریگولیٹنگ باڈی ہے۔ وہ ڈاکٹروں کا لائسنس منسوخ کر سکتی ہے۔ یہ عطائیوں کو ریگولیٹ کرنے کی باڈی نہیں ہے، یہ کام پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہے کہ ان کے خلاف ایکشن لے۔‘
ایستھیٹک میڈیسن یا سرجری کے عمل کے لیے کیسے معلوم کریں کہ ہم صحیح ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر فرید نے کہا: ’میری خاص طور پر خواتین سے یہ درخواست ہے کہ جب آپ کپڑوں کے ایک جوڑے یا زیور لینے کے لیے چار دکانیں گھوم سکتی ہیں تو اپنی جلد پر کوئی عمل کروانے سے پہلے یہ ضرور دیکھیں کہ وہ پی ایم ڈی سی پر رجسٹرڈ ڈاکٹر ہو۔
’ترجیح تو یہ ہونی چاہیے کہ جس سے عمل کروایا جا رہا ہے وہ کسی ٹیچنگ ہسپتال میں مستند پروفیسر ہو، دوسرا پی ایم ڈی سی کی ویب سائٹ پر جائیں تو اس ڈاکٹر کی ڈگری میں لکھا ہو کہ وہ ایستھیٹک میڈیسن یا پلاسٹک سرجری کا ماہر ہے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج کل سوشل میڈیا پر میک اپ زدہ چہرے دیکھ کر لوگوں خاص طور پر خواتین پر نفسیاتی اثر ہو رہا ہے، جس کے تحت انہیں ضرورت نہ بھی ہو تو وہ اپنے چہرے یا کسی اور جسم کے حصے پر ایستھیٹک میڈیسن یا سرجری کروانا چاہتے ہیں۔
’اس لیے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کہیں علاج کروانے کے لیے آنے والا کسی نفسیاتی الجھن کا شکار تو نہیں۔ یہ چیز ایک مستند ڈاکٹر ہی دیکھے گا لیکن جس نے صرف پیسے بنانے ہیں وہ ان چیزوں کا خیال نہیں رکھے گا وہ آپ کو مزید کئی چیزوں کو صحیح کروانے کا مشورہ دے دے گا۔‘