انڈین صحافی خوشونت سنگھ کی اشیا سنبھال کر رکھنے والے پاکستانی

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں اسد بھٹی نے زرد رنگ کا وہ کپڑا بھی دکھایا جو انہوں نے اب تک سنبھال رکھا ہے جس میں خشونت سنگھ کی راکھ پاکستان لائی گئی تھی۔

صوبہ پنجاب کے ضلع خوشاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں ہڈالی میں پیدا ہونے والے انڈیا کے مشہور ادیب، ناول نگار، صحافی اور سفارت کار خوشونت سنگھ تقسیم ہند کے وقت انڈیا نقل مکانی کر گئے لیکن ان کی یادیں آج بھی آبائی علاقے میں موجود ہیں۔

ہڈالی گاؤں کے رہنے والے محمد علی اسد بھٹی پاکستانی فوج سے ریٹائرڈ ہیں اور ادبی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہتے ہیں۔

محمد علی اسد بھٹی کو انڈین رہنما خشونت سنگھ سے عشق ہے، بقول محمد علی اسد بھٹی: ’میں نے ہوا میں تیر مارا اور ایک خط لکھ کر اس پر خشونت سنگھ نئی دہلی بھارت لکھ کر پوسٹ کر دیا۔‘

محمد علی اسد بھٹی کا یہ کہنا تھا کہ ’مجھے توقع نہیں تھی کہ اتنی بڑی آبادی کے ملک میں یہ خط متعلقہ آدمی (خشونت سنگھ) تک پہنچ جائے گا۔ اگر پہنچ بھی گیا تو جواب آنا مشکل ہے مگر اس کے برعکس میرا لکھا گیا خط خشونت سنگھ تک پہنچ گیا بلکہ اس کا جواب بھی آ گیا یہیں سے ہماری خط وکتابت کا آغاز ہوا اور میں خشونت کے عشق میں مبتلا ہو گیا۔

’اس سے پہلے میری خشونت سنگھ سے ایک بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہ 1986 میں ہڈالی آئے تھے لیکن میں اس وقت ڈیوٹی پر تھا تو ان سے ملاقات نہ ہو پائی۔‘

محمد علی اسد بھٹی کا کہنا ہے کہ ’اس زمانے میں ٹیلی فون اتنا عام نہیں تھا بس رابطے کا اہم ذریعہ خط وکتابت ہی تھی۔‘

2003 میں محمد علی اسد بھٹی جب ایک پنجابی کانفرنس میں شرکت کے لیے انڈیا کے شہر چندی گڑھ گئے تو وہاں کانفرنس کی انتظامیہ سے انہوں نے کہا کہ وہ خشونت سنگھ سے ملنا چاہتے ہیں تو منتظمین نے جوابا کہا کہ ’آپ کا ویزہ چندی گڑھ کا ہے پابندی کی وجہ سے آپ دلی نہیں جا سکتےالبتہ ٹیلے فون پر خشونت سنگھ سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔‘

محمد علی اسد بھٹی کا کہنا تھا کہ ’جب منتظمین نے خشونت سنگھ کا ٹیلی فون ملایا تو میں نےخشونت سنگھ کو اسلام علیکم کہا جواب میں خشونت سنگھ نے وعلیکم السلام کہا اور جب اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ میں ہڈالی والا محمد علی اسد بھٹی بول رہا ہوں تو خشونت سنگھ نے کہا کہ اوئے بھٹی تو کہاں ادھر آ گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کے بعد خشونت سنگھ کی طرف سے کافی دیر خاموشی رہی میں ہیلو ہیلو کرتا رہا مگر کوئی جواب نہ آیا مجھے بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا کہ میں نے اتنی دور آ کر خشونت سنگھ سے بات کی اورمنتظمین کے سامنے شرمندہ بھی ہونا پڑا  کیوں کہ میں کانفرنس کے شرکا اور منتظمین سے کہہ چکا تھا کہ خشونت سنگھ بھی ہڈالی کا ہے اور میں بھی ہڈالی کا ہوں اور میری ان سے خط و کتابت کے ذریعے اچھی جان پہچان ہے۔

’مگر جب سہہ پہر ہوئی تو اچانک شور بلند ہوا کہ  خشونت سنگھ آ گیا ہے، خشونت سنگھ آ گیا ہے، وہ سیدھا میرے پاس آئے اور کہا او بھٹی تم، اس کے بعد وہ آبدیدہ ہو گئے، میری گردن پر بوسہ دیا اور کہا کہ میں نے فون اس لیے کاٹ دیا تھا کہ فرط جذبات سے مجھ سے بات نہیں ہو پا رہی تھی۔

اسد علی بھٹی نے بتایا کہ خشونت سنگھ نے کہا کہ ’میری جنم بھومی، میرے گاؤں، میرے وطن کا دوست آیا ہوا ہے میں خود اس سے ملنے جاؤں گا ملاقات کے دوران خشونت سنگھ مجھ سے گھنٹوں باتیں کرتے رہے ہڈالی کے کھیتوں کھلیانوں، گلیوں، پگڈنڈیوں، گاؤں کے سکول اور ریلوے پٹڑی کی باتیں کرتے رہے۔‘

خشونت سنگھ کی لکھی گئی کتاب ’ٹرین ٹو پاکستان‘ اور ان کی  یادیں تازہ کرتے ہوئے محمد علی اسد بھٹی بھی آبدیدہ ہو گئے اور کہا کہ خشونت سنگھ کی آخری خواہش یہ تھی کہ وہ اپنے گاؤں ہڈالی کی مٹی میں دفن کیے جائیں۔

اسی طرح پھر ان کی وفات پر ان کی راکھ کو لاہور کے رہنے والے سید اعجاز پاکستان لائے جو انڈیا خشونت سنگھ کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے گئے تھے۔

اس کے بعد یہاں کے مقامی ڈپٹی کمشنر کی مدد سے خشونت سنگھ کی راکھ کو ہڈالی لایا گیا اور یہاں کے سرکاری سکول میں ایک سنگ مرمر کی تختی نصب کی گئی۔

اس سیمنٹ میں خشونت سنگھ کی راکھ کو ملا کر تختی سکول کی دیوار میں لگا دی گئی۔

انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں اسد بھٹی نے زرد رنگ کا وہ کپڑا بھی دکھایا جو انہوں نے اب تک سنبھال رکھا ہے جس میں خشونت سنگھ کی راکھ پاکستان لائی گئی تھی۔ ان کے پاس خشونت سنگھ کی تصاویر، ان کے ناول اور دیگر اشیا بھی محفوظ ہیں۔

انہوں نے ہڈالی گاؤں میں خشونت سنگھ کی یاد میں اپنے گھر کے ایک کمرے میں   چھوٹی سی لائبریری بھی بنا رکھی ہے جس کا نام انہوں نے خشونت سنگھ لائبریری      رکھا ہوا ہے۔

محمد علی اسد بھٹی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور انڈیا دونوں ملک چوں کہ صدیوں ایک ساتھ اکٹھے رہے ہیں ہماری ثقافت، رہن سہن اور چال ڈھال ایک ہی ہے تو دونوں ممالک کو چاہئیے کہ ایک دوسرے سے اچھے تعلقات رکھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا