پاکستان نے بیرون ملک سیاسی پناہ کے تحت رہنے والے یا اس کے خواہش مند شہریوں کو پاکستانی پاسپورٹ جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے پانچ جون کو ارسال کی جانے والے ایک مراسلے میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ ملکی سلامتی اور سکیورٹی کے تناظر میں کیا گیا ہے۔
ڈائریکٹوریٹ جنرل آف امیگریشن اینڈ پاسپورٹ، اسلام آباد میں انچارج (آن لائن اوورسیز) اور ملک بھر میں پاسپورٹ جاری کرنے والی اتھارٹیز کو لکھے جانے والے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ بیرون ملک سیاسی پناہ کے تحت رہنے یا اس مقصد کے لیے درخواست دہندہ گان پاکستانی شہریوں کو پاکستانی پاسپورٹ جاری نہیں کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے وزارت داخلہ کو اس سلسلے میں اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ بیرون ملک سیاسی پناہ کے خواہش مند یا وہاں پہلے سیاسی پناہ کے تحت رہنے والے پاکستانی شہریوں کے پاسپورٹ بھی منسوخ کر دیے جائیں گے۔
’ایک مرتبہ پاسپورٹ منسوخ ہونے کے بعد دوبارہ جاری بھی نہیں کیے جائیں گے۔‘
وزارت داخلہ کے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ بیرون ملک سیاسی پناہ کے تحت رہنے والوں یا سیاسی پناہ کے خواہش مند شہریوں کو پاکستانی پاسپورٹ جاری نہ کرنے کا فیصلہ ڈائریکٹر جنرل امیگریشن اینڈ پاسپورٹ سے مشورے کے بعد کیا گیا ہے۔
بیرون ملک سیاسی پناہ
پاکستان میں سیاسی مخالفین کے خلاف مبینہ انتقامی کارروائیوں کے باعث اکثر سیاسی جماعتوں کے کارکن اور رہنما بیرون ملک سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
اس وقت بھی پاکستان تحریک انصاف کے بعض رہنما بیرون ملک مقیم ہیں اور مبنہ طور پر انتقامی کارروائیوں کے ڈر سے وطن واپس لوٹنے سے گریزاں ہیں۔ اس کے علاوہ اس کا بظاہر مقصد بیرون ملک بیٹھ کر پاکستانی اداروں پر سوشل میڈیا کے ذریعے تنقید کرنے والوں کا جنہوں نے دوسرے ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواست کر رکھی ہے راستہ بھی روکنا ہوسکتا ہے۔
ملک میں فوجی حکومتوں کے دوران بیرون ملک سیاسی پناہ حاصل کرنے کے رجحان میں اضافہ نظر آتا ہے، جس کی بڑی مثال جنرل ضیاالحق کے دور حکومت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی اور جنرل مشرف کے دور اقتدار کے دوران پاکستان مسلم لیگ ن سے منسلک پاکستانی شہریوں کا دنیا کے کئی دوسرے ملکوں میں سیاسی پناہ کے تحت رہنا تھا۔
پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران روزگار کے مواقعوں میں کمی، معاشی بدحالی اور مہنگائی کے پیشِ نظر بھی پاکستانی شہریوں کے ملک چھوڑنے اور دیگر ممالک میں رہائش اختیار کرنے کے رجحانات میں کئی گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ برس ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2023 کی پہلی سہ ماہی کے دوران ساڑھے چار لاکھ سے زیادہ پاکستانی مختلف ممالک روانہ ہوئے تھے۔
پاکستانیوں کی بڑی تعداد کا بیرون ملک جانے کا اندازہ پاسپورٹ دفاتر اور امیگریشن سینٹرز پر پاسپورٹ اور ویزا کے خواہش مندوں کی لمبی قطاریں دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔
پاسپورٹ اتھارٹی
پاکستان کی وفاقی حکومت نے سال رواں کے شروع میں میں پاسپورٹ کے نظام میں شفافیت لانے کی غرض سے پاسپورٹ اتھارٹی (پاکستان امیگریشن، پاسپورٹ اینڈ ویزا اتھارٹی) کے قیام کی تجویز وفاقی حکومت کو ارسال کی گئی تھی۔
نئی پاسپورٹ اتھارٹی کے قیام کے لیے ترمیمی آرڈیننس کے مسودے میں کہا گیا تھا کہ یہ ڈیجیٹل امیگریشن، ای ویزا، ایمرجنسی ٹریول ڈاکومنٹ، مشین ریڈایبل پاسپورٹس جاری کرے گی۔
مسودے میں کہا گیا کہ اتھارٹی پاکستانی شہریت کا سرٹیفکیٹ بھی جاری کرے گی، اتھارٹی کو پاسپورٹ، ویزا، تمام داخلی و خارجی پوائنٹس پر امیگریشن کے اختیارات ہوں گے، اس کے علاوہ نیشنل بارڈر منیجمنٹ، ایگزٹ کنٹرول لسٹ، پاسپورٹ کنٹرول لسٹ، ایف سی ایل سے متعلقہ مختلف سسٹمز بنانے کے بھی اختیارات ہوں گے۔
اتھارٹی کے پاس پاسپورٹ کے اجرا، ان کی تجدید، ویزا کے اجرا کے بھی اختیارات ہوں گے، اتھارٹی ویزا کی تجدید اور ان حوالوں سے درخواستیں بھی وصول کر سکے گی اور اس کے پاس امیگریشن، پاسپورٹ اور ویزا ڈیٹا ویئر ہاؤس بنانے اختیارات ہوں گے، جب کہ اتھارٹی سٹیزن شپ ایکٹ 1951، سٹیزن شپ رولز 1952 کے تحت سٹیزن شپ سرٹیفکیٹ جاری کر سکے گی۔