نئی تحقیق کے سامنے آنے کے بعد مریخ پر انسانی مشن خطرے میں پڑ سکتے ہیں کیوں کہ طویل دورانیے کا خلائی سفر خلابازوں کے گردوں کو متاثر کر سکتا ہے۔
انسانوں اور چوہوں پر مشتمل 40 سے زائد خلائی مشنز کے دوران جمع کیے گئے نمونوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خلا کے حالات کے مطابق گردوں کی ساخت تبدیل ہو جاتی ہے اور بعض حالات میں خلا میں ایک ماہ سے بھی کم گزرنے کے بعد گردوں کے سکڑنے کے آثار نظر آتے ہیں۔
تحقیق کے یہ نتائج آنے والی دہائیوں میں سپیس ایکس اور ناسا کے مریخ پر انسانی مشن بھیجنے کے منصوبوں کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ سپیس ایکس کے سربراہ ایلون مسک نے حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ (مریخ پر انسانی مشن) اگلے 10 سے 20 سالوں میں ممکن ہو سکتا ہے۔
اس تحقیق پر کام کرنے والے یونیورسٹی کالج لندن (یو سی ایل) کے سائنس دانوں نے کہا ہے کہ خلائی پرواز کے دوران جتنی دیر انسان مائیکرو گریویٹی اور کہکشاں سے نکلنے والی شعاعیں کی زد میں رہے گا اتنا ہی یہ ان کی صحت کے لیے سنگین خطرات کا باعث بنتی ہے۔
مریخ پر مستقبل کے مشن کو خارج از امکان قرار نہیں دیا گیا حالانکہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ خلابازوں کو شدید نقصان سے بچنے کے لیے اپنے گردوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس مقصد کے لیے خلائی جہاز میں ڈائلیسس مشین جیسے گردوں کی بحالی کے طریقے متعارف کروائے جاسکتے ہیں۔
لندن ٹیوبلر سنٹر سے منسلک اس تحقیق کے پہلے مصنف اور یو سی ایل ڈیپارٹمنٹ آف رینل میڈیسن میں کام کرنے والے ڈاکٹر کیتھ سیو نے اس بارے میں کہا: ’ہم جانتے ہیں کہ اب تک انجام دیے گئے نسبتاً مختصر خلائی مشنز میں خلابازوں کو گردے کی پتھری جیسے صحت کے مسائل میں اضافے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ان کے بقول: ’ہم نہیں جانتے کہ یہ مسائل کیوں پیش آتے ہیں اور نہ ہی مریخ مشن جیسے مجوزہ طویل خلائی سفر کے دوران خلابازوں کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے۔ اگر ہم گردوں کی حفاظت کے لیے نئے طریقے تیار نہیں کرتے ہیں تو میں کہوں گا مریخ تک پہنچنے والے خلا بازوں کو واپسی پر ڈائیلاسز کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ گردے تابکاری کے نقصان کی علامات تاخیر سے ظاہر کرتے ہیں۔ جب تک یہ علامات ظاہر ہوں گی اس وقت تک گردوں کو فیل ہونے سے روکنے کے لیے شاید بہت دیر ہو چکی ہو گی اور یہ صورت حال مشن کی کامیابی کے امکانات کے لیے تباہ کن ہو گی۔‘
لندن ٹیوبلر سنٹر، یو سی ایل ڈیپارٹمنٹ آف رینل میڈیسن کے سینئر مصنف پروفیسر سٹیفن والش نے کہا: ’ہمارا مطالعہ اس حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے کہ اگر آپ خلائی مشن کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو گردے اس حوالے سے حقیقی اہمیت رکھتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’آپ شیلڈنگ کا استعمال کرتے ہوئے کہکشاں کی تابکاری سے ان (گردوں) کی حفاظت نہیں کر سکتے لیکن جیسا کہ ہم رینل بیالوجی کے بارے میں مزید سیکھیں گے، یہ ممکن ہے کہ طویل خلائی سفر کے لیے تکنیکی طریقہ کار یا ادویات تیار کی جا سکیں۔‘
یہ تحقیق سائنسی جریدے ’نیچر کمیونیکیشنز‘ میں شائع ہوئی تھی۔
© The Independent