انڈیا: اروندھتی رائے کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت

بوکر انعام یافتہ ناول نگار اروندھتی رائے نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ کشمیر کا علاقہ کبھی بھی ’ہندوستان کا اٹوٹ حصہ‘ نہیں رہا۔

اروندھتی رائے سات دسمبر، 2006 کو نئی دہلی میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے خلاف ایک احتجاج میں شریک ہیں (اے ایف پی)

انڈیا کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے معروف مصنفہ اروندھتی رائے کے خلاف مقدمہ چلانے کی باقاعدہ اجازت دے دی، جن کو 2010 میں ایک اشتعال انگیز تقریر کرنے پر انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت الزامات کا سامنا ہے۔

62  سالہ بوکر انعام یافتہ ناول نگار رائے نریندر مودی انتظامیہ کی اقلیتوں کو نشانہ بنانے والی متنازع پالیسیوں اور قوانین کی سخت ناقد ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہندوستان میں وسیع پیمانے پر سماجی ناانصافیوں پر بھی بات کرتی ہیں۔

یہ الزامات 2010 میں دہلی میں کشمیر پر منعقدہ ایک پروگرام سے متعلق ہیں، جہاں رائے اور کشمیر سے بین الاقوامی قانون کے سابق پروفیسر شیخ شوکت حسین نے ایک بینر تلے تقریر کی تھی جس پر لکھا تھا ’آزادی - واحد راستہ)۔‘

رائے نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ کشمیر کا علاقہ، جس پر ہندوستان اور پاکستان دونوں کا مکمل طور پر دعویٰ ہے اور جزوی طور پر دونوں کے زیر انتظام ہے، کبھی بھی ’ہندوستان کا اٹوٹ حصہ‘ نہیں رہا۔

رائے کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت دہلی کے سب سے سینیئر عہدے دار وی کے سکسینہ نے دی ہے، جو نریندر مودی کی حکمراں جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان ہیں اور لیفٹیننٹ گورنر کے طور پر ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔

گورنر ہاؤس کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ انہوں (سکسینہ) نے ان دونوں کے خلاف غداری کے الزامات سے متعلق غیر قانونی سرگرمی (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کی ایک دفعہ کے تحت مقدمہ چلانے کی اجازت دی ہے۔

انسداد دہشت گردی کے متنازع قانون یو اے پی اے کے تحت حکام مشتبہ افراد کو بغیر کسی الزام کے 180 دن تک حراست میں رکھ سکتے ہیں۔

2019 میں مودی انتظامیہ نے اس قانون میں تبدیلی کی تھی تاکہ کسی بھی شخص کو دہشت گرد گروپ سے منسلک کیے بغیر اس کی دہشت گرد کے طور پر درجہ بندی کی جا سکے۔

تبدیلی کے نفاذ کے بعد 2019 میں کل 1948 افراد کو گرفتار کیا گیا، جو پچھلے سال کے مقابلے میں تقریباً 37 فیصد زیادہ ہے۔

گورنر آفس کے عہدے دار کے مطابق، 2010 کی تقریب میں رائے نے ممتاز علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی کے ساتھ مل کر ’اس بات کا پرزور پروپیگنڈا کیا کہ کشمیر کبھی بھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا اور ہندوستان کی مسلح افواج نے اس پر زبردستی قبضہ کیا اور ریاست جموں و کشمیر کی ہندوستان سے آزادی کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس معاملے میں کشمیر سے شکایت کنندہ سشیل پنڈت نے کہا کہ شرکا نے ’کشمیر کو ہندوستان سے الگ کرنے‘ پر تبادلہ خیال کیا اور اسے فروغ دیا۔

یہاں تک کہ پچھلی کانگریس حکومت کے دوران ہونے والے اس پروگرام کے وقت بھی دہلی کے حکام نے قانونی مشورہ لیا تھا کہ آیا وہ رائے پر ان کے تبصرے کی وجہ سے غداری کا الزام لگا سکتے ہیں یا نہیں۔

تاہم حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ اور شہری حقوق کے کارکنوں نے اعتراض کیا ہے کہ 14 سال بعد الزامات کی پیروی کی جا رہی ہے۔

’اگر اروندھتی رائے پر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ چلا کر بی جے پی یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ واپس آ گئی ہیں، تو ایسا نہیں ہے،‘ یہ کہنا تھا اپوزیشن پارٹی ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا کا جو حالیہ عام انتخابات میں مودی کی کارکردگی کا حوالہ دے رہی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ کبھی بھی اس طرح واپس نہیں آئیں گے جیسے وہ تھے، اس طرح کے فاشزم کے خلاف ہندوستانیوں نے ووٹ دیا ہے۔

کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسوادی) نے کہا کہ رائے کے خلاف دہلی کے گورنر کی کارروائی فاشسٹ قسم کے علاوہ منطق کی نفی کرتی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا