نولینڈ آرباؤ منہ کے بل پانی کی سطح پر تیر رہے تھے جب انہیں احساس ہوا کہ وہ اپنے جسم کو مزید حرکت دینے سے قاصر ہیں۔
اس وقت تک یہ ایک خوبصورت دن تھا کیوں کہ وہ چند گھنٹے پہلے اپنے دوستوں کے ساتھ پنسلوونیا کی سرسبز پہاڑیوں سے گھری اس جھیل پر پہنچے تھے۔
وہ بچوں کے سمر کیمپ میں کام کے دوران ایک دن کی چھٹی پر تیراکی کے لیے یہاں آئے تھے۔
22 سالہ نولینڈ پہلے ایک بار پانی میں کود چکے تھے لیکن دوسری بار دو دوستوں کے ساتھ پانی میں گئے تو گر گئے اور دوسروں کے ساتھ پانی میں غوطہ لگایا لیکن ان کے برعکس وہ سطح آب پر نہیں آئے۔
جب انہیں ہوش آیا تو وہ پہلے ہی ڈوب رہے تھے۔ نولینڈ نے محسوس کیا کہ وہ مفلوج ہو گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’میں نے اس وقت سوچا، کیا میں کچھ کر سکتا ہوں؟ نہیں، تو آگے کیا ہو گا؟
’میں نے اپنی سانس کو جتنی دیر تک ممکن تھا روکا شاید پانچ یا 10 سیکنڈ تک۔ پھر میں نے پانی کا ایک گھونٹ پیا اور بس اتنا ہی۔ اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں رہا۔‘
وہ اس وقت تک ہوش اور بے ہوشی کی کشمکش میں رہے جب تک ایک ایئر ایمبولینس وہاں نہیں پہنچ گئی۔
وہ قریبی ہسپتال میں پوری طرح ہوش میں آئے جہاں انہیں ہنگامی سرجری کے لیے لے جایا گیا۔ ان کی گردن کی ہڈیوں کے دو مہرے منقطع ہوگئے تھے۔
نولینڈ نے نرس سے کہا کہ فون پر ان کی والدہ کو ان کی حالت کے بارے میں نہ بتایا جائے ’کیوں کہ میں صرف یہ سوچ رہا تھا کہ اس سے وہ پریشان ہو جائیں گی۔‘
نرم مزاج، فیاض اور عاجز نولینڈ نے ایریزونا میں اپنے گھر سے ویڈیو کال پر یہ کہانی سنائی جو وہ اب صحیح معنی میں ’سائبرگ سلیبرٹی‘ بن گئے ہیں۔
اس حادثے کے آٹھ سال بعد، جس نے انہیں مفلوج کر دیا تھا، رواں سال جنوری میں 30 سالہ نولینڈ پہلے انسان بن گئے جن کے دماغ میں کلینکل ٹرائل کے طور ایلون مسک کی نیوروٹیکنالوجی کمپنی نیورالنک کی بنائی گئی چپ لگائی گئی جسے ٹیلی پیتھی کا نام دیا گیا تھا۔
اگر یہ کامیاب ہو جاتا ہے تو دماغ میں سگنلز کو ڈی کوڈ کرنے اور انہیں کمانڈز میں تبدیل کر کے امپلانٹ لوگ صرف اپنی سوچ سے آلات کو کنٹرول کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
برین کمپیوٹر انٹرفیس (بی سی آئی) نامی یہ امپلانٹیبل ڈیوائس ایک سکے کے سائز کی چپ ہے اور اسے سرجری کے بعد کھوپڑی کے نیچے لگایا گیا جہاں اسے نولینڈ کے موٹر کارٹیکس سے منسلک 64 نیورو تھریڈز سے معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔
نولینڈ نے بتایا کہ بنیادی طور پر امپلانٹ نیورو تھریڈز کے قریب سے خارج ہونے والے نیوران کے ارادوں کو سیکھتا ہے۔
چپ نصب ہونے کے چند دنوں کے اندر نولینڈ صرف اپنے خیالات کا استعمال کرتے ہوئے کمپیوٹر سکرین پر کرسر کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
اپنی نوعیت کی اس پہلی کامیابی نے پوری دنیا میں سرخیاں بنائیں۔ پانچ ماہ بعد اب تک جو کچھ ہوا، وہ اس کی کہانی دنیا کو سنانے کے لیے تیار ہیں۔
جنوری کے بعد سے نیورالنک نے نولینڈ کو مکمل آزادی نہیں دی تھی، جس کا انہوں نے ہسپتال میں اپنے چار ماہ کے قیام کے بعد کے پہلے دنوں اور ہفتوں سے ہی مطالبہ شروع کر دیا تھا۔
وہ انٹرنیشنل سٹڈیز کے ایک ہونہار طالب علم تھے جو اس حادثے سے پہلے شاندار کھلاڑی اور سیکسوفون بجانے کے ماہر تھے۔ وہ ہر اس موقع کو تلاش کرنا چاہتے ہیں جو ان کی صحت یابی میں مدد کر سکے۔
حادثے کے بعد نولینڈ اپنے والدین کے ساتھ رہنے لگے لیکن یہ ان کے لیے مشکل ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’کسی بھی پارٹی کی رونق رہنے بعد اس طرح معذوری اور مفلوج زندگی گزارتے دیکھنا آسان نہیں۔
’مجھے یہ برا لگتا ہے کہ کوئی مجھے کمزور یا بے بس سمجھے۔ مجھے کھانے اور گھٹن کے بارے میں فکر مند ہونے جیسی چیزوں سے دورے پڑتے ہیں کیونکہ میں ان حالات میں کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔‘
ان کے خاندان اور دوستوں کا ایک وسیع حلقہ نولینڈ کی مدد کے لیے موجود تھا جو ان کے شیڈول کی اس طرح منصوبہ بندی کرتے تاکہ وہاں ہمیشہ کوئی نہ کوئی موجود رہے۔
’میں بہت سارے دوستوں کے ساتھ پلا بڑھا ہوں۔ ستمبر 2023 میں ان دوستوں میں سے ایک نے شراب کے نشے میں مجھے نیورالنک ٹرائل کے بارے میں بتانے کے لیے کال کی۔‘
اس نے نشے میں مجھے پانچ منٹ کا تجزیہ پیش کیا کہ یہ چپ اور ٹرائل کیا تھا اور پھر فوراً فون پر ہی اس کے لیے اپلائی کرنے میں میری مدد کی۔ تاہم مجھے کچھ خاص امید نہیں تھی کہ جواب آئے گا۔‘
لیکن دو دن کے اندر انہیں نیورالنک ٹیم کی طرف سے ایک ای میل موصول ہوئی۔ اس کے اگلے دن ان کا انٹرویو ہوا۔
چار ماہ بعد یعنی 28 جنوری کو صبح پانچ بجے وہ ہسپتال میں ایلون مسک کا انتظار کر رہے تھے- مسک کو سرجری سے پہلے ان سے ملنا تھا لیکن مبینہ طور پر ان کے پرائیویٹ جیٹ میں مسائل تھے اور وہ دو گھنٹے کے آپریشن کے دوران وہاں پہنچے۔
ایلون مسک کے مداح نولینڈ پرجوش تھے اور انہیں اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ انہیں منتخب کر لیا گیا تھا۔
انہیں اس بات کا علم نہیں کہ انہیں کیوں منتخب کیا گیا، حالانکہ انہوں نے اعتراف کیا کہ انتخابی عمل کے دوران انہوں نے خود کو ’زیادہ سے زیادہ نمایاں ہونے‘ کی کوشش کرتے ہوئے، مزاحیہ باتیں کیں اور اپنا جوش و جذبہ ظاہر کیا۔ لیکن اس میں واضح خطرات بھی شامل تھے۔
’ایک مفلوج لاچار شخص کے طور پر میرے پاس صرف دماغ ہی تھا۔ حادثے کے بعد اس ایک چیز کے لیے میں ہر روز خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے میری سوچنے کی صلاحیت اور میری شخصیت سے محروم نہیں کیا۔
’لہٰذا دماغ کی سرجری کے لیے جانا ایک ایسی چیز تھی جس کے بارے میں مجھے کافی غور کرنا تھا۔ میں نے خطرات کو قبول کیا اور تمام ممکنات کے لیے خود کو تیار کیا۔
’میں نے اپنے والدین سے کہا کہ اگر سرجری کے بعد میں کسی قسم کی ذہنی معذوری کے ساتھ باہر آتا ہوں تو میں نہیں چاہتا کہ وہ میرا خیال رکھیں۔
’میں گھر نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ میں ان پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ میں اپنے خاندان کو کبھی اس مشکل میں نہیں ڈالوں گا۔‘
نولینڈ کو یہ بھی معلوم تھا کہ یہ نیورالنک کا پہلا ورژن ہوگا۔ یہ کسی انسان کے لیے اس کا بدترین ورژن بھی ہو سکتا تھا لیکن وہ دوسروں کے مشعل راہ بننا چاہتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ اس ڈیوائس کو امپلانٹ کرانے والا پہلا شخص بننا ان کے لیے ان کی زندگی کا مقصد تھا۔
ان کے بقول: ’میں پہلے دن سے جانتا تھا کہ اس کی اہمیت اس سے زیادہ تھی کہ یہ کام کرے گا بھی یا نہیں۔‘
انہوں نے اس سے درپیش آنے والے مسائل پر بھی بات کی۔ سرجری کے ہفتوں بعد تقریباً 85 فیصد نیورو تھریڈز نولینڈ کے دماغ سے الگ ہو گئے اور انہیں دوبارہ منسلک کرنا پڑا تاکہ وہ کمپیوٹر کرسر پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر سکیں۔
کچھ ماہرین اس ڈیوائس کے محفوظ ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار رہے ہیں جس کا اندازہ صرف اس کے طویل مدتی اثرات پر لگایا جا سکتا ہے جیسا کہ نیورالنک کی بندروں پر کی گئی تحقیق کے بارے میں خدشات بڑھے تھے جو ان کے بقول ’دائمی انفیکشن، فالج اور شدید نفسیاتی سائیڈ ایفیکٹس کا سبب بنتے ہیں۔
نیورالنک خود بھی جانوروں کی فلاح و بہبود کی مبینہ خلاف ورزیوں کی وفاقی تحقیقات کا سامنا کر چکا ہے۔
ابھی تک اس بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں کہ اس کے نولینڈ پر نفسیاتی اثرات یا ان کے دماغ پر کیسے طویل مدتی اثرات ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ ٹیکنالوجی ابھی بہت ابتدائی آزمائشی مراحل میں ہے۔
لیکن اب یہ ہو چکا ہے۔ صرف پانچ مہینوں میں نولینڈ کا کہنا ہے کہ امپلانٹ نے ان کی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا۔
سرجری سے پہلے وہ ایک ماؤتھ سٹک کا استعمال کرتے تھے جس کے ذریعے وہ اپنے آئی پیڈ پر پڑھنے یا دوستوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے ٹیپ کرتے تھے۔
وہ بتاتے ہیں: ’اس (ماؤتھ سٹک) کی وجہ سے زیادہ دیر تک بیٹھنے سے میرے جسم پر بہت زیادہ دباؤ پڑا اور گردن کو مسلسل حرکت دینے سے اس میں تناؤ بڑھ جاتا۔
’ایک دن تک سٹک کا استعمال کرنے سے نولینڈ نے دباؤ، زخم اور اینٹھن تک کا خطرہ مول لیا جس کی وجہ سے وہ گر سکتے تھے۔‘
امپلانٹ آپریشن سے صحت یاب ہونے کے بعد نولینڈ نے اپنے ارادوں پر ردعمل ظاہر کرانے کے لیے نیورونز کو ’تربیت‘ دینا شروع کی یہ سوچتے ہوئے شاید اس مشق کا مثبت نتیجہ نکلے گا اور کچھ ہی دنوں بعد ان کی حیرت کی انتہا نہیں رہی جب انہوں نے پہلی بار سکرین پر کرسر کو حرکت کرتے دیکھا۔
ان کے بقول: ’میں کرسر کو جہاں لے جانے کے بارے میں سوچتا، کرسر ویہیں پہنچ جاتا۔‘ آنے والے مہینوں میں وہ امید کرتے ہیں کہ کرسر پر کنٹرول ٹائپنگ تک بڑھ جائے گا۔
فی الحال وہ ایک ’چھوٹا ورچوئل کی بورڈ‘ استعمال کرنا سیکھ رہے ہیں جس پر وہ کچھ بھی لکھنے کی ڈکٹیشن دے سکتے ہیں، یہ ایڈ آن ایپل کے سسٹم ’سری‘ کے استعمال سے 10 گنا بہتر ہے جو 70 سے 80 فیصد تک ان کی ڈکٹیشن کو غلط سمجھتا ہے۔
مارچ تک وہ کمپیوٹر کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنے دماغ کا استعمال کرتے ہوئے آن لائن شطرنج کھیل رہے تھے۔ وہ اب اس کی مدد سے جاپانی زبان سیکھ رہے ہیں۔
نولینڈ کا کہنا ہے کہ انہوں نے جو سب سے اہم چیز حاصل کی ہے اسے ہم میں سے زیادہ تر لوگ اہمیت نہیں دیتے، یعنی اپنے صحت مند دوستوں کی طرح تیزی سے ٹائپنگ کرنا جس نے ان کی بات چیت کو ممکن بنایا۔
’میں حال ہی میں سوشل میڈیا پر دوبارہ آیا ہوں اور اسے جاری رکھنے کے قابل ہوں۔ میں پہلے ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ اس (ڈیوائس) نے مجھے باہر کی دنیا سے دوبارہ جوڑ دیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کم از کم ان کے دوستوں اور خاندان کے مطابق وہ اب زیادہ خوش ہیں۔ ’وہ کہتے ہیں کہ میں اب زیادہ مسکراتا ہوں۔ وہ مجھ میں اس تبدیلی کو پسند کرتے ہیں۔‘
یہ ٹیکنالوجی اب کہاں تک جا سکتی ہے، یہ دنیا کو گرفت میں لینے کے لیے تیار ہے۔
ایلون مسک نے پہلے پیش گوئی کی تھی کہ یہ بالآخر مفلوج افراد کو چلنے اور اپنے بازو دوبارہ استعمال کرنے کی صلاحیت دے سکتی ہے اور اب دیگر لیبز بھی برین کمپیوٹر انٹرفیس (بی سی آئیز) کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔
یہ ایک طرح کی ’سائبرگ ہتھیاروں‘ کی دوڑ ہے لیکن اس ٹیکنالوجی سے سب سے بڑے انعامات حاصل کیے جا سکتے ہیں اور اس کے دور رس اثرات ہو سکتے ہیں۔
اگرچہ برین کمپیوٹر انٹرفیس اب تک بنیادی طور پر مفلوج لوگوں کو ان کی سوچ کا استعمال کرتے ہوئے معاون آلات کو کنٹرول کرنے میں مدد کرنے پر مرکوز رہے ہیں لیکن یہ یقینی طور پر اس شعبے تک محدود نہیں رہیں گی۔
2020 میں ہارورڈ بزنس ریویو نے کام کی جگہوں پر برین کمپیوٹر انٹرفیس کے استعمال کے بارے میں پیشن گوئی کی تھی کیونکہ وہ بڑے پیمانے پر ابھرتی ہوئی مارکیٹ کا حصہ ہیں۔
یہ ایسے منظرناموں کی پیشن گوئی ہے جہاں آپ کی سوچ کو حقیقی وقت میں ناپا جا سکتا ہے۔
کیا یہ خوف ناک بھی ہے؟ جی ہاں، لیکن نولینڈ اب ایلون مسک کے عزائم کی عملی تصویرہیں جو اسے جہاں تک بڑھانا چاہیں، بڑھا سکتے ہیں۔
نولینڈ نیورالنک سے بات کر رہے ہیں کہ وہ ایک ایسا طریقہ تلاش کرنے کی کوشش کریں جس سے وہ اپنے اب تک کے سفر کے بارے میں کتاب یا ناول لکھنے کے اپنے خواب کو پورا کر سکیں۔
ہماری گفتگو کے دوران وہ مصروف رہے اور واضح طور پر اپنی آنکھیں سکرین کے گرد گھوماتے رہے۔ وہ پہلے سے ہی مسلسل ملٹی ٹاسکنگ یعنی ایک وقت میں ایک سے زیادہ کام کر رہے ہیں۔
نولینڈ کہتے ہیں کہ ’ابھی بہت کچھ ہے جو میں کرنا چاہتا ہوں۔ وقت بتائے گا کہ آیا ایلون مسک بطور ٹیکنالوجی کے ’خدا‘ اسے ممکن بنا پائیں گے یا نہیں۔‘
© The Independent