چاہے یہ خوش قسمتی ہے یا کوئی اور وجہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پوری زندگی اپنے اعمال کے نتائج سے بچتے ہوئے گزاری ہے۔ وہ بلا روک ٹوک زندگی گزارتے رہے ہیں اور جب ان کے اپنے عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو انہوں نے الٹا دوسروں کو ہی مجرم قرار دے ڈالا۔
یہ ’میں ربڑ ہوں، تم گوند ہو‘ کی حکمت عملی کا ایک حصہ تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے 2016 کے صدارتی انتخابات میں سابق نیویارک سینیٹر اور اوباما انتظامیہ کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو شکست دی۔
ان لوگوں کے لیے جنہیں شاید یاد نہ ہو، کلنٹن نے 16-2015 کے انتخابی دور میں زیادہ تر وقت ایک سکینڈل کے سائے میں گزارا تھا، جس کا تعلق ان کے امریکی وزیرِ خارجہ کے طور پر کام کرتے ہوئے ایک نجی ای میل سرور کے استعمال سے تھا۔ کانگریس کے تحت کی جانے والی تفتیش سے پتہ چلا کہ ان کے معاونین سے موصول ہونے والی کچھ ای میلز میں ایسی معلومات تھیں جو بعد میں خفیہ قرار دی گئیں۔
تھیوری کی حد تک یہ معلومات، ان پر قومی دفاعی معلومات کی دیکھ بھال سے متعلق امریکی قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں فردِ جرم عائد کرنے کے لیے کافی ہو سکتی تھیں۔
اس انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے بار بار انہیں مجرم قرار دیا۔ اکتوبر 2016 کے ایک مباحثے میں انہوں نے کہا کہ اگر وہ صدر بن گئے تو کلنٹن جیل میں ہوں گی۔
اب آٹھ سال بعد ٹرمپ کی خوش قسمتی کے دن ختم ہو گئے ہیں۔ انہیں ایک عدالت میں مجرم قرار دیا گیا ہے۔
نیویارک کے 12 جیوری ارکان نے انہیں 34 سنگین جرائم میں کاروباری ریکارڈز میں ردوبدل کرنے کا مجرم پایا، جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ 2016 کے صدارتی انتخابات کو غیر قانونی طور پر متاثر کر سکیں۔
ٹرمپ پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے اس وقت کے وکیل مائیکل کوہن کے ذریعے سٹورمی ڈینیئلز کو ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر کی ’خاموشی کی قیمت‘ کہلانے والی رقم ادا کی۔ سٹورمی ڈینیلز نے کہا تھا کہ ٹرمپ نے ان کے ساتھ جنسی تعلق قائم کیا ہے اور یہ خبر ہیلری کلنٹن کے خلاف ان کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچا سکتی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگرچہ ٹرمپ اب دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی سزا ’جعلی‘ اور ’بدعنوان‘ ہے اور انہوں نے اس کے خلاف اپیل کرنے کا عہد کیا ہے، لیکن اب وہ پہلی بار حقیقی نتائج کا سامنا کرنے والے ہیں۔
انہیں فلوریڈا میں ووٹ دینے سے روکا جا سکتا ہے، لیکن صرف اس صورت میں اگر وہ جیل میں ہوں۔ انہیں کچھ پیشہ ورانہ لائسنس حاصل کرنے اور بہت سی ریاستوں میں کچھ قسم کے کاروبار چلانے سے روکا جا سکتا ہے اور کچھ ممالک انہیں داخلے سے روک سکتے ہیں یا انہیں ویزا حاصل کرنے کے لیے اضافی شرائط پوری کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
لیکن ٹرمپ کے لیے سب سے سنگین نتیجہ جو ان کے مستقبل پر سب سے زیادہ وسیع اثرات ڈال سکتا ہے، وہ ووٹروں کی جانب سے آ سکتا ہے۔
این پی آر اور پی بی ایس کی جانب سے کروائے گئے ایک نئے سروے کے مطابق، جو ماریسٹ کالج نے انجام دیا، 17 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ ٹرمپ کے خلاف مجرم قرار دیے جانے کا فیصلہ، نومبر میں ٹرمپ کو ووٹ دینے کے ان کے امکانات کو کم کر دے گا۔
بظاہر 17 فیصد کچھ زیادہ نہیں۔ یہ صرف چھ میں سے ایک ووٹر کی نمائندگی کرتا ہے، جبکہ اکثر جواب دہندگان نے کہا کہ ٹرمپ کے خلاف مجرم قرار دیے جانے کا فیصلہ ان کے ووٹ دینے کے طریقے پر کوئی فرق نہیں ڈالے گا۔
اگرچہ بائیڈن رائے عامہ کے بہت سے جائزوں میں پیچھے نظر آ رہے ہیں، اگر ٹرمپ کے حامی چھ میں سے ایک ووٹر بھی اس نومبر میں ووٹ دینے سے باز رہے یا انہوں نے موجودہ صدر کے لیے ووٹ دیا، تو اس سے ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس واپس آنے کے امکانات ختم ہو سکتے ہیں۔
لیکن امریکی صدارتی انتخابات میں یہ چھوٹے فرق ہی سب سے زیادہ اہم ہو سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی شہری صدر کو قومی عوامی ووٹ کے ذریعے نہیں بلکہ 50 انفرادی انتخابات کے ذریعے منتخب کرتے ہیں، جن کے نتائج ہر ریاست کی آبادی کے مطابق تیار کیے جاتے ہیں۔
اسی پیچیدہ نظام کی وجہ سے ٹرمپ نے 2016 میں تین اہم ریاستوں (وسکونسن، مشی گن، اور پنسلوانیا) کو جیت کر ہلیری کلنٹن کو شکست دی، حالانکہ انہوں نے مجموعی قومی انتخابات میں کئی ملین ووٹوں کے فرق سے شکست کھائی تھی۔
آخر میں جب ٹرمپ چار سال بعد بائیڈن کے مقابلے میں آمنے سامنے آئے تو ان تین ریاستوں میں تقریباً 30 ہزار ووٹوں ہی نے فرق ڈالا۔ اس وقت جارجیا، ایریزونا اور وسکونسن میں صرف 44 ہزار ووٹوں کا فرق تھا جو بائیڈن کو جتوانے میں مددگار رہا۔
اگرچہ بائیڈن رائے عامہ کے بہت سے جائزوں میں پیچھے نظر آ رہے ہیں، لیکن اگر ٹرمپ کے حامی چھ میں سے ایک ووٹر بھی اس نومبر میں ووٹ دینے سے باز رہے یا انہوں نے موجودہ صدر کے لیے ووٹ دیا، تو اس سے ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس واپس آنے کے امکانات ختم ہو سکتے ہیں۔
اور اگر وہ اس نومبر میں دوسری غیر مسلسل مدت کے لیے جیتنے میں ناکام رہے، تو ان کے خلاف باقی تین مجرمانہ مقدمات کے مشترکہ وزن کا مطلب ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ اپنی بقیہ زندگی جیل میں گزار دیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent