پاکستان کے قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے دو سینیئر رہنماؤں کو نامعلوم افراد کی جانب سے قتل کیا گیا ہے۔
گذشتہ ہفتے جے یو آئی جنوبی وزیرستان وانا کے امیر اور مولانا فضل الرحمان کے قریبی ساتھی مولانا مرزا جان نامعلوم افراد کی فائرنگ سے زخمی ہوئے تھے اور آج (منگل کو) جے یو آئی کے مطابق پشاور کے ہسپتال میں انتقال کر گئے۔
مولانا مرزا جان کی عیادت کے لیے مولانا فضل الرحمان بھی گئے تھے اور ان کا شمار جے یو آئی کے جید علماؤں میں کیا جاتا تھا۔
اسی طرح عیدالاضحٰی کے پہلے روز پولیس کے مطابق جنوبی وزیرستان میں جے یو آئی کے دوسرے مقامی رہنما مولانا دین سعید کو بھی فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔
جنوبی وزیرستان کی ضلعی پولیس کے سربراہ فرمان اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مولانا دین سعید قربانی کرنے کے بعد جا رہے تھے کہ نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کردیا۔
جے یو آئی کو ہدف بنانے کا سلسلہ حالیہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی جے یو آئی کے مختلف رہنماؤں اور جلسے جلوسوں کو ہدف بنایا گیا ہے جس میں زیادہ تر کی ذمہ داری داعش تنظیم کی خراسان شاخ نے قبول کی۔
پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات سے قبل جے یو آئی کے ایک جلسے کو ضلع باجوڑ میں ہدف بنایا گیا تھا جس میں کم از کم 40 افراد جان سے گئے تھے اور دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
عام انتخابات سے قبل جے یو آئی کے دیگر رہنماؤں کو بھی باجوڑ میں نشانہ بنایا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو نے تجزیہ کاروں سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ جے یو آئی کو داعش کی جانب سے کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس کے پیچھے کیا محرکات ہو سکتے ہیں۔
ضیاالرحمان معروف امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے لیے مضمون لکھتے ہیں اور شدت پسند تنظیموں پر مختلف تحقیقی مقالوں کے مصنف ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چمن، وزیرستان اور باجوڑ میں موجود جے یو آئی کی مقامی قیادت کے ان اضلاع سے متصل افغانستان کے صوبوں میں موجود افغان طالبان سے قریبی تعلقات ہے۔
ضیا الرحمان نے بتایا کہ باجوڑ اس میں خاص اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ماضی میں باجوڑ میں جے یو آئی کے رہنما عثمان ترابی افغان طالبان کے اتنے قریب تھے کہ افغانستان میں افغان طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد ان کو ننگرہار کا گورنر بنایا گیا تھا۔
ضیا الرحمان کے مطابق عثمان ترابی نے پھر ننگرہار میں داعش کے خلاف بھرپور آپریشن بھی کیا تھا اور اسی وجہ سے داعش نے جے یو آئی کو افغان طالبان کے قریب رہنے کی وجہ سے نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔
انہوں نے بتایا، ’باجوڑ میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی کچھ قیادت داعش میں بھی گئی ہے اور وہاں پر داعش کی جانب سے جے یو آئی کو زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
اس کی ایک دوسری وجہ ضیاالرحمان کے مطابق جے یو آئی کا دیوبندی نظریہ بھی ہے جو داعش کے نظریے کے متضاد ہے۔
انہوں نے بتایا کہ داعش نے ہمیشہ دیوبندی یا اپنے متضاد نظریات رکھنے والی تنظیموں اور مسلکی گروپوں کو ماضی میں نشانہ بنایا ہے جس میں جے یو آئی بھی شامل ہے۔
ضیاالرحمان کے مطابق، ’داعش جمہوری عمل کے بھی سخت خلاف ہے۔ جے یو آئی ایک تو افغان طالبان کے قریب، دوسرا دیوبندی نظریہ اور تیسرا جمہوری عمل کے حامی۔۔۔ان ساری اکایئوں پر پوری اترتی ہے اور تب ہی داعش کے لیے ایک اہم ٹارگٹ ہے۔‘
امریکہ کے سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق پاکستان میں داعش کے حملے 2015 سے 2022 میں بڑھ گئے تھے لیکن 2023 میں اس میں کمی آئی تھی۔
اسی رپورٹ کے مطابق 2015 میں ایک حملہ ہوا تھا جبکہ 2022 میں داعش نے مختلف مکاتب فکر کے لوگ اور جگہوں کو نشانہ بنایا تھا جس کی تعداد 54 تھی تاہم 2023 میں یہ کم ہو کر 17 ہو گئی تھی۔
اسی تحقیق کے مطابق، ’حملوں میں کمی کی وجہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی کی جانب سے داعش کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔‘
ٹی ٹی پی کے بارے میں مقالے میں لکھا گیا ہے کہ داعش کے لیے ٹی ٹی پی بنیادی ریکروٹنگ تنظیم تھی لیکن 2019 کے بعد ٹی ٹی پی نے ناراض افراد اور دھڑوں کو دوبارہ ملانا شروع کردیا تھا جس سے داعش متاثر ہوئی ہے۔
جے یو آئی کو نشانہ بنانے کے حوالے سے امریکہ کے جیمس ٹاؤن فاؤنڈیشن نامی ادارے کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق داعش نے باقاعدہ طور پر جے یو آئی کے سکالرز کو نشانہ بنانے کے لیے فتویٰ جاری کیا ہے۔
اسی تحقیقی مقالے کے مطابق فتوے میں وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ جے یو آئی جمہوری عمل کی سرپرستی اور خلافت کے خلاف ہے جبکہ وہ پاکستان میں افغان طالبان کی حمایت کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
باجوڑ میں جے یو آئی کے کنونشن میں دھماکے کے بعد بھی داعش کی جانب سے ایک تفصیلی پروپیگنڈہ کتابچہ جاری کیا گیا تھا جس میں جے یو آئی کو نشانہ بنانے کی وجوہات بیان کی گئی تھیں۔