سرکاری نشریاتی ادارے اے بی سی کی تحقیقات کے مطابق آسٹریلیا نے دفاعی ٹیکنالوجی کے ماہر، سیاست دانوں اور ہوائی اڈے کے سکیورٹی پروٹوکول کو نشانہ بنانے والی انٹیلی جنس سرگرمیوں میں ملوث انڈیا کے چار جاسوسوں کو ’خاموشی سے‘ 2020 میں ملک بدر کیا۔
آسٹریلوی حکام 2020 میں خفیہ طور پر انڈیا کی جاسوسی کی سرگرمیاں سامنے آنے کے بعد پریشان تھے حالانکہ اس دوران کینبرا اور نئی دہلی نے ظاہری طور پر مضبوط سفارتی اور تجارتی تعلقات پر زور دیا۔
رپورٹ کے مطابق انڈین ایجنٹ سابق اور موجودہ سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ ریاستی پولیس سروس کو نشانہ بنانے اور حساس دفاعی ٹیکنالوجی اور ہوائی اڈے کے سکیورٹی پروٹوکول تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کے علاؤہ وہ انڈین آسٹریلوی کمیونٹی کی نگرانی بھی کر رہے تھے۔
2021 میں آسٹریلیا کے انٹیلی جنس چیف مائیک برجیس نے انکشاف کیا تھا کہ ان کی ایجنسی نے انڈیا کا نام لیے بغیر ’جاسوسوں کے گھونسلے‘ کا پردہ فاش کیا تھا۔ اس کے جواب میں آسٹریلیا نے کم از کم چار انڈین انٹیلی جنس ایجنٹوں کو بے دخل کر دیا جو خود کو سفارت کار ظاہر کر رہے تھے۔
مائیک برجیس نے اس وقت کہا تھا کہ ’ہم نے غیر ملکی جاسوسوں کا مقابلہ کیا اور خاموشی اور پیشہ ورانہ طور پر انہیں ہٹا دیا۔‘
مائیک برجیس نے مارچ 2021 میں بھی کہا تھا کہ جاسوسوں نے موجودہ اور سابق سیاست دانوں، ایک غیر ملکی سفارت خانے اور ریاستی پولیس سروس کے ساتھ ’ٹارگٹڈ‘ تعلقات استوار کیے تھے۔
ان کے بقول جاسوسوں نے اپنے ملک کی سمندر پار کمیونٹی کی نگرانی کی اور آسٹریلیا کے تجارتی تعلقات کے بارے میں خفیہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے ایک سرکاری ملازم سے کہا کہ وہ ایک بڑے ہوائی اڈے پر سکیورٹی پروٹوکول کے بارے میں معلومات فراہم کرے۔
اے بی سی کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ مشتبہ جاسوسوں کو بے دخل کرنے پر خاموشی اختیار کی گئی تاکہ نریندر مودی کی حکومت کو عوامی شرمندگی سے بچا جا سکے جنہوں نے انڈیا کو ایک بڑے عالمی کھلاڑی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
مائیک برجیس نے اس وقت کہا تھا کہ جاسوسی آپریشن کے پیچھے ملک کا تعلق ’ہمارے خطے‘ سے نہیں تھا اور اس ملک کا نام ظاہر کرنے سے غیر ضروری خلفشار پیدا ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گرینز پارٹی کے سینیٹر ڈیوڈ شوبرج نے کہا کہ آسٹریلیا کو انڈیا کی جانب سے جاسوسی کی سرگرمیوں پر کھلے عام مذمت کرنی چاہیے تھی۔
انہوں نے کہا: ’نہ صرف یہ کہ انڈیا کے ساتھ ہمارے تعلقات کے لیے ایک ایماندارانہ بنیاد رکھنا اچھا ہوتا بلکہ اس سے یہاں کی سمندر پار کمیونٹیز کو یہ پیغام بھی جاتا کہ ہمیں آپ کی پشت پناہی حاصل ہے۔‘
سب سے پہلے اپریل میں واشنگٹن پوسٹ نے آسٹریلیا سے دو انڈین غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنٹوں کو نکالے جانے کی خبر دی تھی۔
اس وقت گرینز ہوم افیئرز کے ترجمان ڈیوڈ شوبرج نے کہا تھا کہ آسٹریلیا کو نئی دہلی کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ’یہ واضح طور پر سمجھے جانے والے اتحادی کے اقدامات نہیں ہو سکتے۔‘
ان کے بقول: ’آسٹریلیا کا انڈیا کے ساتھ مضبوط، پختہ اور ایماندارانہ تعلق ہونا چاہیے جس میں اس انسانی حقوق اور سیاسی چیلنجز کے بارے میں کھل کر بات کرنا شامل ہے جو بی جے پی کی حکومت اندرون اور بیرون ملک پیدا کر رہی ہے۔‘
انڈیا کی وزارت خارجہ نے واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس نے ’ایک سنگین معاملے پر غیر ضروری اور غیر مصدقہ الزام لگایا ہے۔‘
اے بی سی کی تحقیقات میں انڈین حکام کی جانب سے آسٹریلوی سکھ کارکنوں کے خلاف مبینہ دھمکیوں کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خالصتان تحریک کے رہنما مونیندر سنگھ آسٹریلیا میں اس وقت اپنی حفاظت کے لیے خوفزدہ تھے جب ان کے دوست ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا میں مبینہ طور پر انڈین کارندوں نے قتل کر دیا تھا۔
ہردیپ سنگھ نجر کو وینکوور میں گردوارے کے باہر مبینہ طور پر انڈین انٹیلی جنس اہلکاروں کی طرف سے منظم حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔
رواں سال مارچ میں انڈیا نے نجر کے قتل کے بارے میں اے بی سی کی ایک تنقیدی رپورٹ پر پابندی لگا دی تھی۔
خالصتان تحریک شمال مغربی انڈیا خصوصاً پنجاب میں سکھوں کے لیے ایک آزاد ریاست قائم کرنا چاہتی ہے۔ انڈین حکومت نے تحریک کے رہنماؤں کو مطلوب دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔
اے بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس کے کارندوں کی بے دخلی کی بڑھتی ہوئی تعداد انڈیا کو روس اور چین جیسے ممالک کے برابر لا کھڑا کر سکتی ہے جو بیرون ملک پروٹوکول کی خلاف ورزی کے لیے بدنام ہیں۔
اے بی سی نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی سے منسلک گروپ ’اوورسیز فرینڈز آف بی جے پی اینڈ راہل جیٹھی‘ کے ذریعے آسٹریلیا میں انڈین تارکین وطن کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ راہل جیٹھی گروپ کے ساتھ ساتھ لبرل پارٹی میں بھی ایک اہم شخصیت ہیں جن پر ارکان کو بھرتی کرنے اور اثر انداز ہونے کا شبہ تھا جس سے مقامی سیاست میں مداخلت اور سیاسی دراندازی کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
انڈیا آسٹریلیا کے لیے ایک اہم تجارتی شراکت دار ہے جو چین پر اپنا انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
دونوں ممالک ’کواڈ سکیورٹی ڈائیلاگ‘ کے رکن کے طور پر فوجی تعاون کو بھی مضبوط کر رہے ہیں۔ اس گروپ میں امریکہ اور جاپان بھی شامل ہیں۔
دی انڈپینڈنٹ نے تبصرہ کے لیے انڈیا کی وزارت خارجہ سے رابطہ کیا ہے۔
© The Independent