عوام کو بجٹ پہ کیسے راضی کریں گے؟

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے جب پریس کانفرنس اور ٹی وی چینلز پر مزید ٹیکس عائد کرنے کی منطق کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ انہوں نے وہی کیا جو عام طور پر ہوتا ہے یعنی ایک لمبی کہانی شروع کر دی۔

12 جون، 2024 کو اسلام آباد پولیس کے اہلکار بجٹ دستاویزات پارلیمنٹ کی عمارت میں پہنچا رہے ہیں (اے ایف پی)

زیادہ دیر کی بات نہیں، بجٹ سے چند روز قبل وزیر اعظم کے کوارڈینیٹر رانا احسان افضل نے کہا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے مطابق ’تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔‘

انھوں نے بہ بانگ دہل کہا کہ شہباز شریف آئی ایم ایف کی جانب سے تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس لگانے کی شرط کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس کا بوجھ نہیں ڈالیں گے جو پہلے ہی سے ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔

لیکن چند روز بعد ہی جب بجٹ پیش کیا گیا تو وہی ہوا جو پچھلے سال اور اس سے پچھلے سال اور اس سے پچھلے سال ہوتا چلا آ رہا ہے۔ تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس عائد کر دیے گئے۔

وفاقی وزیر خزانہ اورنگزیب سے جب پریس کانفرنس اور ٹی وی چینلز پر مزید ٹیکس عائد کرنے کی منطق کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ انھوں نے وہی کیا جو عام طور پر ہوتا ہے، ایک لمبی کہانی شروع کر دی۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ٹیکس دینا ہر شہری کا فرض ہے اور اسی ٹیکس کی مد میں جمع کی جانے والی رقم حکومت ترقیاتی کاموں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے صرف کرتی ہے لیکن شاید پاکستان میں تمام کاموں کے لیے تنخواہ دار طبقے سے ہی ٹیکس وصول کرنا ہے۔

آئین ایک ایسا تحریری سماجی معاہدہ ہے جس میں تمام شہریوں کے حقوق و فرائض کا تعین ہوتا ہے۔

سادہ الفاظ میں آئین یا دستور ریاست اور فرد کے درمیان ایک کانٹریکٹ ہے جس میں ریاست فرد کو تحفظ، وقار، برابری اور آگے بڑھنے کے موقع فراہم کرنے کی ضمانت دیتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جبکہ شہری اس کے عوض ریاست کے ساتھ وفادار رہنے اور خاص صورتوں میں اپنی کچھ آزادیوں پر معقول اور مناسب قانونی پابندیوں کی پاسداری کا وعدہ کرتے ہیں۔

اسی آئین کا آرٹیکل 20 مذہبی آزادی کے بارے میں ہے۔ ہر انسان کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے لیکن یہاں کیا ہو رہا ہے؟ کوئی کسی کو کافر قرار دینے کے لیے تیار بیٹھا ہے تو کوئی کسی کو مار کر خوشی محسوس کرتا ہے۔

اسی طرح آرٹیکل 25 انسانی برابری کی بات کرتا ہے، قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں اور جنس کی بنیاد پر کوئی فرق روا نہیں رکھا جا سکتا۔

ظاہر ہے کہ ہر معاشرے میں انسانی برابری مثالی نہیں ہوتی لیکن اتنا زیادہ فرق بھی نہیں ہونا چاہیے کہ انسانی برابری سے ایمان اٹھ جائے۔

آرٹیکل 25 اے تعلیم کے حق کی بات کرتا ہے۔ پانچ سے 16 سال تک کی عمر کے بچوں کو سرکاری سکولوں میں مفت تعلیم دی جائے گی۔

مفت تعلیم دینا تو دور کی بات ہے یہاں تو سرکاری سکولوں کا وہ حال کر دیا گیا ہے کہ لوگ اپنے بچے نجی سکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ٹیکس دینا تنخواہ دار طبقے کی مجبوری ہے یا اگر یہ کہا جائے کہ اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی اور راستہ ہی نہیں ہے تو زیادہ درست ہو گا۔

لیکن اس کے بدلے میں حکومت سے ٹیکس دہندگان کو کیا مل رہا ہے۔ وہ صرف کسی بھی سرکاری اہلکار کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمہاری تنخواہ اور مراعات ہمارے ٹیکس سے ملتی ہے، اور آگے سے کیا جواب ملتا ہے وہ بھی ہم سب جانتے ہیں۔

ہمیں اس بات پر بالکل شک نہیں کرنا چاہیے کہ حکومت نیک نیتی سے نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوششوں میں ہے جیسے کہ اس سے پچھلی اور اس پچھلی یا پھر اس سے پچھلی حکومتیں تھیں لیکن مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب عوام کو اس نیک نیتی کے لیے کیے جانے والے اقدامات نظر نہیں آتے۔

ایک طرف ٹیکس کا بوجھ تو دوسری جانب 20 سے 25 فیصد تنخواہوں میں اضافہ۔

ہمیں یقین ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی ٹیم کو بڑی محنت کر کے اس بات پر راضی کیا ہو گا کہ جی سنیں تنخواہ دار طبقہ تو خاموش ہو جائے گا لیکن یہ بابو لوگ نہیں ہوں گے اور حکومت چلانے کے لیے ان کو خوش کرنا زیادہ ضروری ہے۔

عوام کے پاس تو پانچ سال بعد ہی جانا ہے اور چوتھے سال اچھا بجٹ دے دیں گے اور عوام سب کہا سنا معاف کر دیں گے۔

اور کیوں نہ معاف کرے کیونکہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کے لیے دو ہی تو قوتیں ہوتی ہیں جو لوگوں کو اکٹھا کرتی ہیں، ایک یونین اور دوسری سیاسی جماعتیں، یونینز تو بہت عرصے سے ہیں نہیں اور دوسری اب رہی نہیں۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ