اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کو بتایا گیا ہے کہ چین مذہبی اور نسلی اقلیتوں کا قتل عام کر رہا ہے اور ان کے اعضا نکال کر صنعتی پیمانے پر فروخت کر رہا ہے۔
انسانی حقوق کے وکیل حامد صیبی نے منگل کو انسانی عضا کو جبری اور وسیع پیمانے پر نکالنے کی تحقیق کرنے والے آزاد ٹریبونل، کی رپورٹ جنیوا میں کونسل ہیڈ کواٹرز میں جمع کروائی۔ اس کو ’چائنا ٹربیونل‘ کا نام دیا گیا ہے۔
حامد نے کونسل کو بتایا کہ اس رپورٹ کے نتائج سامنے آنے کے بعد اب اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی یہ ’قانونی ذمہ داری‘ ہے کہ وہ انسانیت کے خلاف اس سنگین جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔
ان کے مطابق جون میں ٹربیونل کی حتمی رپورٹ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ’اویغور اور فالن گونگ اقلیتی برادریوں کے خلاف کیے گئے انسانیت سوز جرائم اب کسی شک و شبہات سے بالا تر ہیں۔‘
چائنا ٹربیوبل کی سربراہی سر جیفری نائس کیو سی کر رہے تھے جنہوں نے اس تحقیق کے دوران طبی ماہرین، عینی شاہدین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے بیانات سنے اور ثبوت اکٹھے کیے۔
سر جیفری نائس کیو سی اس سے قبل سابقہ یوگوسلاویہ میں جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے قائم انٹرنیشنل کریمنل ٹربیونل میں بطور پراسیکیوٹر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس ٹربیونل نے سلوبودین ملوسیوچ پر جنگی جرائم کے لیے فرد جرم عائد کی تھی۔
چائنا ٹربیونل نے اپنی رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس بات کے واضح ثبوت ہیں کہ چین گذشتہ 20 سالوں سے فالن گونگ کے اقلیتی گروہ کے ارکان کو ان کے جسموں سے انسانی اعضا نکال کر ہلاک کر رہا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
ٹریبونل کے حتمی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نظربند افراد کو ہلاک کرنے کے لیے زندہ حالت میں ان کے جسموں سے گردے، دل، جگر، پھیپھڑے، آنکھوں کے پردے حتیٰ کہ ان کی جلد کو نکال کر فروخت کر دیا جاتا ہے۔
ٹریبونل رپورٹ کے مطابق اس بات کے بھی ممکنہ شواہد موجود ہیں کہ اویغور مسلم اقلیت کے ساتھ ساتھ تبتیوں اور کچھ عیسائی فرقوں سے تعلق رکھنے والے نظربند افراد کے اعضا بھی نکال کر ان کی تجارت کی جاتی ہے۔
حالیہ دنوں میں چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں دس لاکھ سے زیادہ اویغور مسلمانوں کی نظربندی اور ان کو ’دوبارہ تعلیم‘ دینے کی مہم نے نمایاں بین الاقوامی توجہ حاصل کی ہے اور دنیا میں اب اس کی مذمت بھی کی جا رہی ہے۔
ٹریبونل کو شواہد ملے ہیں کہ یہ اویغور مسلمان ’اعضا کے بینک‘ کے طور پر استعمال ہورہے ہیں جن کا باقاعدہ طبی معائنہ کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب چینی حکومت بارہا اعضا کی ’غیر اخلاقی‘ پیوند کاری کی تردید کرتی رہی ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ اس نے 2015 کے بعد سے سزائے موت پانے والے قیدیوں کے جسموں سے اعضا نکالنے کا عمل روک دیا تھا۔
چین نے رواں برس لندن میں قائم چائنا ٹریبونل پر ’افواہوں‘ کو فروغ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔
لیکن سر جیفری نے منگل کو اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک این جی او ایونٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ٹریبونل کے ذریعے جمع کیے گئے شواہد کے بعد عالمی برادری اب اس مشکل اعتراف اور بھیانک حقیقت سے صرف نظر نہیں کر سکتی۔
ٹریبونل کی رپورٹ کے مطابق اعضا کی پیوند کاری کی صنعت سے چین ممکنہ طور پر سالانہ ایک ارب ڈالر کما رہا ہے۔
سر جیفری نے ’انٹرنیشنل ٹرانسپلانٹ سوسائٹی‘ اور قومی طبی تنظیموں سے ٹرانسپلانٹ سرجری کے لیے چائنا ٹریبونل کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
کچھ ممالک نے، جن میں اٹلی، سپین، اسرائیل اور تائیوان شامل ہیں، اعضا کی پیوند کاری اور اس طرح کی سرجری کے لیے چین جانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
اس کے علاوہ چائنا ٹریبونل کی حمایت کرنے والی برطانوی تنظیم ’انٹرنیشنل کولیشن ٹو اینڈ ٹرانسپلانٹ ابیوز اِن چائنا‘ (ای ٹی اے سی) نے کہا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ اعضا کی غیر قانونی پیوند کاری روکنے کے لیے بل اکتوبر میں برطانیہ کی پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔
تنظیم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سوزی ہیوز نے کہا کہ ای ٹی اے سی کو امید ہے کہ ان کی تحقیق سے چین میں غیرقانونی پیوند کاری کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کا ایک کمیشن قائم کرنے کے لیے تحریک پیدا ہو گی۔
حامد نے اپنے خطاب میں کہا کہ اعضا کی پیوند کاری کے لیے اقلیتی گروہوں کو نشانہ بنانا نسل کشی کی ممکنہ فرد جرم ہو سکتی ہے اور اس کا موازنہ حالیہ تاریخ میں بڑے پیمانے پر مذہبی یا نسلی ظلم و ستم کی دوسری مثالوں سے کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کونسل کو بتایا کہ ’چین کی جانب سے انسانیت کے خلاف یہ جرم نازیوں کی جانب سے یہودیوں کی ہلاکت، کمیونسٹ تحریک ’خمیر روج‘ کے دوران کیے گئے قتل عام اور روانڈا میں ہونے والی نسل کشی سے کسی طور کم بھیانک نہیں ہے۔ انسانیت کے خلاف اس جرم میں الزام کے بغیر گرفتار ہونے والے بے گناہ، بے ضرر اور امن پسند افراد کے جسموں سے زندہ حالت میں دل اور دیگر اعضا نکال لیے جاتے ہیں۔‘
حامد صیبی نے کہا کہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی یہ قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مجرمانہ سلوک کے خاتمے کے لیے اقدامات کریں۔
© The Independent