اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اسلام آباد سے رکن قومی اسمبلی انجم عقیل خان کو توہین عدالت کا شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے سات روز میں جواب طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے یہ حکم ریٹائرڈ ججز کی الیکشن ٹربیونل میں تعیناتیوں کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران دیا۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران حکومت کی جانب سے الیکشن ٹریبیونلز سے متعلق آرڈیننس جاری کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل علی بخاری کی درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا ٹریبیونل میں ریٹائرڈ ججز کی تعیناتی کا 10 جون کا فیصلہ معطل کر دیا۔
چیف جسٹس نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن بتائے جج کیسے جانب دار تھے؟ عدالت نے انجم عقیل کو الیکشن کمیشن میں اپنا جمع کردہ بیان حلفی پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت سمجھنا چاہتی ہے کہ نیپوٹزم کیا ہوتا ہے۔ ’مجھے اس کا مطلب سمجھائیں۔‘
انجم عقیل نے جواب دیا یہ قانونی الفاظ ہیں اور وہ عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نیپوٹزم بالکل بھی لیگل لفظ نہیں ہے۔ آپ نے پڑھے بغیر بیان حلفی پر دستخط کر دیے؟‘
اس پر انجم عقیل نے قرار کیا کہ انہوں نے بیان حلفی پر بغیر پڑھے دستخط کیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت نے پھر پوچھا کہ آپ نے درخواست دی ہے کہ جج صاحب جانب دار تھے تو وہ کیسے تھے؟ آپ کو نیپوٹزم کا یا جانب دار کا نہیں پتا تو درخواست کیوں دی؟ انجم عقیل نے جواب دیا کہ میں نے درخواست کیس منتقلی کے لیے الیکشن کمیشن کو دی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ نے درخواست اسی لیے دی تھی کہ جج نے کوئی سفارش نہیں مانی؟ ’آپ پارلمینٹرین ہیں، آپ نے بجٹ میں رائے دینی ہے، آپ نے قانون سازی کرنی ہے، یا آپ نے وہاں کہنا ہے کہ مجھے بجٹ کا نہیں پتا وزیر خزانہ کا کام ہے؟ چلیں کوئی بات نہیں آپ معاشی ماہر نہیں تو آپ نے کیا کرنا ہے؟‘
دوران سماعت رکن قومی اسمبلی انجم عقیل عدالت سے بار بار معافی مانگتے رہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’آپ نے صرف اتنا بتانا تھا کہ درخواست کیوں دی؟ آپ نے جان بوجھ کر الیکشن کمیشن کو ایک درخواست دی، انجم عقیل نے جواب دیا جان بوجھ کر درخواست نہیں دی۔‘
عدالت نے استفسار کیا تو پھر بتائے درخواست دینے کی وضاحت کریں؟ ’آپ نے جانب داری کا الزام لگایا ہے تو بتائیے جانب داری کیا تھی؟‘
انجم عقیل کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ان کے موکل پارلمینٹرین ہیں، الفاظ سخت ہوسکتے ہیں لیکن کسی نے جان بوجھ کر جج پر الزام نہیں لگایا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیے الیکشن کمیشن نے سوموٹو نہیں لیا، ایک پرائیویٹ درخواست پر آرڈر کیا۔ ’وہ زمانے چلے گئے جب چیزوں کو اس طرح چلاتے تھے، ہر عدالت میں کیا ہوتا ہے مجھے ان چیزوں کا سب پتہ ہے، جو باتیں آپ کر رہے ہیں وہ ان کو بتائیں جنہوں نے کبھی پریکٹس نہیں کی ہو۔‘
اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے انجم عقیل خان کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کر دیا۔
انجم عقیل نے اب شوکاز نوٹس کا سات روز میں جواب دینا ہے۔ عدالت نے انجم عقیل کو ہر سماعت میں پیش ہونے کا حکم بھی دیا۔
اس کے بعد سماعت نو جولائی تک ملتوی کر دی گئی۔
اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے لیے منتخب رکن انجم عقیل کے علاوہ طارق فضل چوہدری اور راجہ خرم نواز نے بھی الیکشن ٹربیونل کی تبدیلی کے لیے الیکشن کمیشن میں درخواستیں جمع کرایں تھیں۔ تینوں لیگی اراکین نے درخواستوں میں موجودہ الیکشن ٹربیونل کی شفافیت اور غیرجانبدار ہونے پر اعتراضات اٹھائے تھے۔
الیکشن کمیشن نے لیگی رہنماؤں کی درخواست منظور کرتے ہوئے تینوں کا کیس جسٹس ریٹائرڈ شکور پراچہ کو منتقل کر دیا تھا۔