اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان اس وقت نہ صرف دہشت گردی بلکہ شدت پسندی کی لپیٹ میں ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں فوج اور پولیس کے جوان جان سے جا رہے ہیں۔
سرگودھا کے بعد سوات میں ایک شخص کو توہین مذہب کے نام پر زندہ جلا ڈالا گیا اور بپھرے ہوئے ہجوم کے سامنے ایک دفعہ پھر پولیس بے بس نظر آئی۔ سوال یہ ہے کہ ہماری ریاست کیوں بے بس نظر آرہی ہے؟
اس کا جواب ایک ہی ہے کہ ہم اپنی جیب پر پاکستان کے پرچم والا بیج لگا کر خود کو اس ملک سے محبت کرنے والا ثابت کرنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن حقیقت میں اس کے بارے میں ہم اتنے فکرمند نہیں، جتنا ہم اپنی ذات، بچوں اور خاندان کے بارے میں ہیں یا ان سب کے بہتر مستقبل کے لیے ہیں۔
جب معیشت سے لے کر ملکی سلامتی کے معاملات تک پر سیاست اور صحافت کرنے میں ہم عار محسوس نہیں کرتے تو کیوں ملکی حالات اس نہج پر نہ پہنچیں، جہاں ہم آج کھڑے ہیں؟
ایپکس کمیٹی نے آپریشن عزم استحکام لانچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں سوال یہ پوچھنے چاہیے تھے کہ گذشتہ دس بارہ برسوں میں ضرب عضب اور ردالفساد جیسے آپریشن لانچ ہوئے، ہزاروں جوانوں نے جانیں قربان کیں، لیکن آج دوبارہ ہم اس نہج تک کیوں اور کیسے پہنچے کہ ایک اور آپریشن ناگزیر ہو چکا ہے؟
یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے تھا کہ یہ آپریشن کیوں، کیسے اور کہاں ہو گا؟ لیکن ان سوالات کی بجائے تین بڑی جماعتوں (تحریک انصاف، جے یو آئی اور عوامی نیشنل پارٹی) نے اس آپریشن کی مخالفت کا اعلان کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ مؤقف بالکل بجا ہے کہ سیاسی قیادت اور قوم کو اعتماد میں لیے بغیر اتنا بڑا آپریشن نہیں شروع ہونا چاہیے لیکن حکومت وقت نے جب یہ واضح کر دیا ہے کہ اس بارے میں حتمی فیصلہ کابینہ اور پھر پارلیمان کرے گی جہاں اس پر تفصیلی بحث ہو گی تو اس کے بعد یہ معاملہ آگے بڑھنا چاہیے تھا، لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف اسے اپنے خلاف آپریشن قرار دے رہی ہے۔
یہ ایک ایسا انتہائی سنجیدہ دعویٰ ہے جس کا حکومت کو واضح جواب دینا چاہیے۔ آپریشن عزم استحکام کے خدوخال اور اہداف پر گذشتہ روز وزیر دفاع خواجہ محمد آصف سے کافی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ میں نے ان سے بڑے واضح انداز میں استفسار کیا کہ کیا یہ آپریشن کسی سیاسی جماعت کے خلاف بھی ہو گا؟ یا باالفاظ دیگر اس کی آڑ میں سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیاں تو نہیں ہوں گی؟
خواجہ آصف نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ایسا ہرگز نہیں ہو گا، ان کے آپریشن عزم استحکام کے کوئی سیاسی مقاصد نہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ حکومت، پی ٹی آئی، جے یو آئی اور اے این پی کی قیادت کے اس بارے میں تمام تر خدشات دور کرنے لیے تیار ہیں اور ان سے رابطے بھی کریں گے۔
اس کے بعد تو وے فارورڈ یہی ہونا چاہیے کہ سیاسی قیادت آپس میں بیٹھ کر کم از کم اس حساس معاملے کو خوش اسلوبی سے طے کرے۔
یہاں اصل امتحان پیپلز پارٹی کا بھی ہے، جن کا اس معاملے پر مؤقف فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی وہ جماعت ہے، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی قیادت کا نذرانہ دے چکی ہے اور اس معاملے پر پیپلز پارٹی کا ہمیشہ سے دو ٹوک مؤقف رہا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کو بھی اس آپریشن پر اعتراضات اور تحفظات ہوئے تو ایسے میں حکومت کا اس معاملے پر آگے بڑھنا تقریباً ناممکن بن جائے گا۔
اگرچہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں شریک تھے لیکن اس بارے میں حتمی فیصلہ بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری ہی کریں گے۔
یہ بات دہرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس وقت بڑھتی ہوئی دہشت گردی اتنا بڑا مسئلہ بن چکا ہے کہ آگے چل کر خدانخواستہ ملک کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ چینی باشندوں پر حملوں سے لے کر پاکستان کے اندر انڈین خفیہ ایجنسی کی ٹارگٹ کلنگز (اس بارے میں دی گارجین تفصیلی رپورٹ چھاپ چکا ہے)، بلوچستان میں فوجی تنصیبات پر حملے ہوں یا پھر خیبرپختونخوا میں روزانہ کی بنیاد پر فوج اور پولیس پر جان لیوا حملے، ان کا سدباب ہر حالت میں کرنا پڑے گا، لیکن مشاورت اور اتفاق رائے کے ساتھ۔
یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں، اس ملک میں امن اور استحکام ہے تو ہم سب کی زندگیوں میں استحکام ہے اور ان تمام چیزوں کے لیے سب سے زیادہ ضروری سیاسی استحکام ہے اور سیاسی استحکام کی متلاشی سیاسی قیادت ہی اس ملک کو سیاسی استحکام بخش سکتی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔