عزم استحکام آپریشن پر اپوزیشن کے اعتراضات اور مخالفت

عزم استحکام آپریشن پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن بحث کے بغیر نہیں ہو سکتا جبکہ مولانا فضل الرحمن کے مطابق یہ ’آپریشن عدم استحکام‘ ثابت ہو گا۔

پاکستان فوج کے اہلکار سات فروری 2024 کو پشاور کی سڑکوں پر گشت کر رہے ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

پاکستان کی حکومت کے ’عزم استحکام آپریشن‘ کے نام سے فوجی آپریشن کو اپوزیشن اور پی ٹی آئی نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ اسے پارلیمان میں پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس پر بحث کی گئی ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے 22 جون کو نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں انسداد عسکریت پسندی کے لیے آپریشن ’عزم استحکام‘ کی منظوری دی تھی۔

اس آپریشن کے خلاف اپوزیشن اور خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اتوار کو قومی اسمبلی میں احتجاج اور تقاریر بھی کی گئیں۔ جبکہ بعض پی ٹی آئی رہنماؤں نے پارلیمان کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی بھی آپریشن پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر شروع نہ کیا جائے۔‘

خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے پیر کو اڈیالہ جیل کے باہر صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ ’یہ آپریشن بحث کے بغیر نہیں ہو سکتا۔‘

علی امین گنڈا پور کا کہنا ہے کہ ’آپریشن واضح نہیں ہے۔ کیا منصوبہ ہے؟ ہم واضح طور پر اس وقت بات چیت کریں گے جب انٹر سروس پبلک ریلیشنز باضابطہ طور پر منصوبہ جاری کرے گا جس میں اس بات کی تفصیل دی جائے گی کہ آپریشن کہاں اور کیسے کیا جائے گا۔ منصوبے کا خاکہ کب منظر عام پر آئے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر پارلیمان کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ ’ہم لوگوں نے معاشی، جانی اور مالی طور پر بہت نقصان اٹھایا ہے۔ اگر انہوں نے ایسا کچھ بھی کرنا ہے تو جب پلان سامنے آئے گا تو بات ہوگی لیکن فی الحال کوئی پالیسی نہیں آئی ہے۔‘

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا کہنا ہے کہ ان کی آرمی چیف یا ڈی جی سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ ’میں ان سے ملنا چاہتا ہوں اور جہاں تک آپریشن کی بات ہے تو اس میں وضاحت نہیں ہے، پلان کے بعد ہی بات چیت ہوگی۔‘

دوسری جانب جمیعت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے بھی عزم استحکام آپریشن کو مسترد کر دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کوئٹہ میں پیر کو ایک پریس کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے آپریشن عزم استحکام کا اعلان تو کر دیا لیکن یہ آپریشن عدم استحکام ہے جس سے پاکستان مزید کمزور ہو گا۔‘

مولانا فضل الرحمن نے سوال کیا کہ ماضی میں جو آپریشن ہوئے ان کے نتائج سامنے رکھے جائیں، آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’خیبرپختونخوا میں سورج غروب ہوتے ہی پولیس تھانوں میں بند ہو جاتی ہے، ملک کو اور کمزور کیوں کیا جا رہا ہے؟ ایپکس کمیٹی کیا ہے؟‘

پاکستان تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمن کے علاوہ پیر ہی کو عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے بھی عزم استحکام آپریشن پر مشاورت نہ کرنے کا شکوہ کیا ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین کا کہنا تھا کہ ’آپریشن عزم استحکام پر کسی کو اعتماد میں میں نہیں لیا گیا۔ یہ یکطرفہ فیصلہ ہے۔‘

میاں افتخار نے مزید کہا کہ ’میں تو خود یہ سمجھتا ہوں اور پارٹی کا ایک موقف ہے کہ اب تو صورت حال یہ ہے کہ لوگوں کا نہ مذاکرات اور نہ آپریشن پر یقین ہے۔‘

ان کے مطابق ’دہشت گردی مذاکرات کے ذریعے ختم ہو اس کی بجائے عوام آئی ڈی پیز بن جاتے ہیں اور دہشت گرد قابض ہو جاتے ہیں اور آپریشن میں بھی یہ صورت حال سامنے آ جاتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان