’مجھے نہیں معلوم کہ آنے والے دن اور راتیں ہم اور ہمارے بچے کہاں اور کیسے گزاریں گے۔ ہمارا گھر رہنے کے قابل نہیں رہا۔ نہیں پتا اب کیا ہو گا۔‘
یہ کہنا تھا زلزلے سے متاثرہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع میرپور کے گاؤں سنگھا لوہارہ کی رہائشی اور تین بچوں کی ماں ثمنینہ بی بی کا۔
ثمینہ بی بی کا مکان منگل کے زلزلے میں تقریباً پوری طرح تباہ ہو چکا ہے۔ صحن میں اینٹوں کے انبار لگے ہیں جبکہ کمروں میں شیشے اور چینی کے برتنوں کے ٹکڑے بکھرے پڑے ہیں۔
40 سالہ ثمینہ کے شوہر دہاڑی دار مزدور ہیں۔ اس خاندان کی اتنی استطاعت نہیں کہ منہدم ہونے والا مکان تعمیر کروا سکے یا فوری طور پر رہائش کا کوئی دوسرا بندوبست کر سکے۔
منگل کے زلزلے میں ثمینہ کے خاندان جیسے ہزاروں کنبے متاثر ہوئے جن کے ارکان زلزلے میں ہلاک یا زخمی ہوئے یا ان کے گھر زلزلے کے جھٹکوں کی نذر ہو گئے۔
این ڈی ایم اے کے چیئرمین لیفٹنینٹ جنرل محمد افضل کے مطابق زلزلے کے نتیجے میں کم از کم 25 لوگ ہلاک اور تین سو سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
زلزلے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ضلع میرپور کے علاقے جاتلاں کے قریب نو چھوٹے چھوٹے دیہات کا جھنڈ ہے۔ جسے مجموعی طور پر سنگھا کہا جاتا ہے۔ تاہم ہر گاؤں کا اپنا نام بھی ہے، جیسے کہ ثمینہ بی بی کا گاؤں سنگھا لوہارہ، اور دوسرے گاؤں سنگھا ککری، سنگھا روشن، سنگھا ہل، سنگھا کلیال، سنگھا زلداراں، سنگھا نِکا، سنگھا نِکا کمہار اور سنگھا بنی کے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سنگھا کے علاقے میں تقریباً 80 فیصد گھر زلزلے سے متاثر ہوئے ہیں۔ تاہم مکمل طور پر تباہ ہونے والے گھروں کی تعداد کم ہے۔ جزوی طور پر متاثر ہونے والے گھروں میں اکثر کی حالت ایسی ہے کہ مکینوں کا ان میں رہنا ممکن نہیں ہے۔
یہاں کے رہائشیوں کا فوری مسئلہ آنے والے دنوں میں محفوظ مقامات پر رہنا ہے۔ اکثر خاندان قریب کے علاقوں میں رہائش پذیر رشتہ داروں کے ہاں چلے گئے ہیں۔
ریسکیو 1122 اور پاکستانی فوج کی ٹیمیں علاقے میں لوگوں کو مدد فراہم کر رہی ہیں۔ ریسکیو 1122 کے سٹیشن کوآرڈینیٹر ہارون سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم فی الحال بوقت ضرورت طبی امداد فراہم کرنے کے علاوہ متاثرہ لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچا رہے ہیں۔‘
پاکستان آرمی کی ٹیمیں بھی منہدم ہونے والے مکانوں کے مکینوں کا سامان محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں مدد کر رہی ہیں۔
سنگھا ہل کے رہائشی محمد ریاض کا گھر بھی تقریباً مکمل طور تباہ ہو چکا ہے۔
ریاض کی درخواست پر آرمی کی ٹیم نے ان کے گھر کا سامان کرائے پر حاصل کیے ہوئے ٹرک میں ڈالا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ریاض نے بتایا: ’میں میرپور میں اپنی بیوی کے رشتہ داروں کے ہاں منتقل ہو رہا ہوں لیکن مستقبل کے متعلق نہیں معلوم کیا ہو گا۔‘
جو خاندان کسی دوسری جگہ منتقل نہیں ہو سکتے وہ اپنے کھنڈر نما گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
سنگھا کی تنگ گلیوں میں اینٹوں کے ڈھیر پڑے ہیں جو گھروں کی بیرونی دیواروں کے منہدم ہونے سے بنے ہیں۔ گذشتہ رات کی بارش کے باعث کیچڑ بھی بن گیا ہے۔
سنگھا کے مختلف دیہات کی گلیوں میں سے گزرتے ہوئے ہر طرف منہدم مکانات، چارپائیوں پر بیٹھی خواتین و حضرات اور ان کے جانور نظر آتے ہیں۔ مکانات کی بیرونی دیواروں کا گر جانا بے پردگی کا باعث بھی بن رہا ہے۔ اکثر لوگوں نے منہدم دیواروں کی جگہ چادریں اور پردے لگائے ہوئے ہیں۔
سنگھا کلیاں کے معمر رہائشی اور چھ پوتیوں کے دادا محمد شفیع نے روہانسی آواز میں بتایا: ’گھر تو تباہ ہو گیا ہے۔ اب بے پردگی بھی ہو رہی ہے۔‘
جزوی طور پر منہدم مکانات میں رات گزارنا یقیناً ایک تکلیف دہ اور مشکل عمل ہے اور اس کی وجوہات میں مخدوش مکانات کے منہدم ہونے کا خطرہ، بجلی کا نہ ہونا، اور کھانے پینے کی اشیا سمیت پانی کی کمی شامل ہیں۔
سنگھا ہل کے رہائشی محمد ثاقب نے بتاتے ہیں: ’یہاں اکثر گھروں میں پانی کے لیے بورنگ کی گئی ہے اور بجلی نہ ہونے کے باعث پانی کی موٹریں بند پڑی ہیں جس کی وجہ سے پانی کی کمی ہو گئی ہے۔‘
کئی فلاحی تنظیمیں زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں کھانے پینے کی اشیا اور پانی مہیا کر رہی ہیں۔ ٹینکرز سے خواتین اور بچے پانی حاصل کرنے کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
پانی بھرتی ہوئی آسیہ بی بی نے بتایا: ’گھر میں پانی ختم ہو گیا ہے۔ اسی لیے یہاں اتنی دور آنا پڑا۔‘
این ڈی ایم اے سنگھا میں زلزلے سے متاثرین کو خیمے فراہم کر رہی ہے۔ خیموں کی تقسیم میں کچھ بدنظمی دیکھنے میں آئی جبکہ کچھ لوگ ایک سے زیادہ مرتبہ خمیے حاصل کرنے کی کوششیں بھی کرتے دیکھے گئے۔
سنگھا کمہارا کے رہائشی محمد مسرور اپنے تباہ شدہ گھر کے قریب کھلی جگہ پر خیمہ نصب کر رہے تھے۔
مسرور نے اپنے بیوی بچے رشتہ داروں کے گھر بھیج دیے ہیں جبکہ خود اپنے بھتیجے کے ساتھ خیمے میں رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’میرے گھر کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ وہ رہنے کے قابل نہیں لیکن ابھی سامان اندر پڑا ہے۔ سب کچھ یوں ہی نہیں چھوڑ سکتا۔‘
اگرچہ حالیہ زلزلے نے 2005 کے بھونچال جیسی تباہی تو نہیں مچائی۔ تاہم بھلے چھوٹی نوعیت کا ہی سہی لیکن اس نے ایک انسانی المیہ پیدا کر دیا ہے۔
سینکڑوں خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ آنے والے تقریباً ایک ہفتے تک حکومت کی جانب سے انہیں مالی یا دوسری کسی قسم کی امداد ملنے کا امکان کم لگتا ہے۔
این ڈی ایم اے کے چیئرمیں لیفٹننٹ جنرل محمد افضل نے میڈیا کو بتایا کہ آنے والے دو چار روز کے بعد زلزلے سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگایا جائے گا۔
یوں آئندہ ایک ہفتے تک ان لوگوں کو گھروں کی تعمیر یا مرمت کے لیے کسی حکومتی امداد کا امکان نہیں ہے اور تب تک ثمینہ بی بی اور ان جیسے ہزاروں زلزلہ متاثرین کو رشتہ داروں کے گھروں یا خیموں میں دن اور رات گزارنا پڑیں گے۔