ہارٹ سرجن، سابق سپیکر، عالمِ دین: ایران کے چار صدارتی امیدوار

ایران میں جمعے کو صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں جن میں چار امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ یہ امیدوار کون ہیں اور ان کی پالیسیاں کیا ہیں؟

26  جون 2024 کو ایران میں ایرانی پارلیمنٹ کے سپیکر محمد باقر قالیباف کی انتخابی ریلی میں روایتی لباس میں ملبوس ایرانی خواتین حامی قومی پرچم تھامے ہوئے (اے ایف پی)

ایران کی مذہبی قیادت نے جمعے کے روز ہونے والے صدارتی انتخابات میں سابق صدر ابراہیم رئیسی کی جگہ چار امیدواروں کو حصہ لینے کی منظوری دے دی ہے۔

ابراہیم رئیسی مئی میں ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں کئی دیگر عہدیداروں کے ساتھ چل بسے تھے۔

ان انتخابات میں کل چار امیدوار میدان میں ہیں، جن میں سب سے جانی پہچانی شخصیت ایرانی پارلیمنٹ کے سپیکر ہیں۔ اس کے علاوہ ایک کم معروف سیاست دان اور دل کے سرجن بھی مقابلے میں حصہ لے رہے ہیں۔

ابتدائی طور پر مقابلے میں چھ امیدوار شامل تھے مگر آخری وقت پر دو اس دوڑ سے الگ ہو گئے۔

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق 53 سالہ امیر حسین غازی زادہ ہاشمی نے اپنی امیدواری واپس لے لی ہے اور دیگر امیدواروں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔

غازی زادہ ہاشمی رئیسی کے نائب صدور میں سے ایک اور شہدا فاؤنڈیشن اور سابق فوجیوں کے امور کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ انہوں نے 2021 کے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا اور تقریباً 10 لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے۔

جمعرات کے روز تہران کے میئر علی رضا زاکانی نے بھی اپنے عہدے سے دستبرداری اختیار کر لی۔انہوں نے اس سے قبل 2021 کے انتخابات میں بھی ایسا کیا تھا۔

زاکانی نے کہا کہ انہوں نے سابق صدر حسن روحانی کی تیسری حکومت کی تشکیل کو روکنے کے لیے دستبرداری اختیار کی ہے۔

صدارتی دوڑ میں شامل امیدواروں پر ایک نظر:

سعید جلیلی

58 سالہ سعید جلیلی ایک سخت گیر سیاست دان اور سابق سینیئر جوہری مذاکرات کار ہیں۔ انہوں نے 2013 کے ایران کے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا، بعد میں رئیسی کی حمایت کی مگر 2021 میں اپنے طور پر انتخابات میں حصہ لیا۔

سی آئی اے کے موجودہ ڈائریکٹر بل برنز، جنہوں نے ماضی میں جلیلی کے ساتھ مذاکرات کیے تھے، نے انہیں مذاکرات میں ’انتہائی غیر شفاف‘ قرار دیا ہے۔

1980 کی دہائی میں ایران عراق جنگ میں وہ ایک ٹانگ کھو بیٹھے تھے، جس کے بعد انہیں ’زندہ شہید‘ کا لقب ملا۔ ان کا موقف ہے کہ ایران کو اپنے جوہری پروگرام پر مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مسعود پزشکیان

ہارٹ سرجن 69 سالہ مسعود پزشکیان صدر بننے کے خواہشمند سخت گیر شخصیات میں واحد اصلاح پسند امیدوار ہیں۔

انہوں نے کہا ہے کہ وہ 2015 کے جوہری معاہدے کے کسی ورژن کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کرنے کے لیے مغرب کے ساتھ دوبارہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس معاہدے کی ضرورت کو اقتصادی لحاظ سے اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو دنیا کے ساتھ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔

ایران کے سابق وزیر خارجہ محمد جواد ظریف، جنہوں نے نسبتاً اعتدال پسند صدر حسن روحانی کے ماتحت خدمات انجام دیں، ان کی حمایت کر رہے ہیں۔

تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مسعود پزشکیان کو جیتنے کے لیے بھاری ٹرن آؤٹ کی ضرورت ہو گی ، جو ملک کی موجودہ بے حسی کو دیکھتے ہوئے ناممکن ہے۔ ان کی مہم اب تک نوجوانوں کے ووٹ، خواتین اور ایران کی نسلی اقلیتوں پر مرکوز رہی ہے۔

مصطفیٰ پورمحمدی

64 سالہ مصطفیٰ پورمحمدی واحد شیعہ عالم دین ہیں، جو انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے سخت گیر صدر محمود احمدی نژاد کے دور میں وزیر داخلہ اور بعد میں روحانی کے دور میں وزیر انصاف کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے انہیں 1990 کی دہائی میں کارکنوں اور دیگر افراد کے قتل کے ذمہ داروں میں سے ایک قرار دیا ہے۔

انتخابی مہم کے دوران انہوں نے اصرار کیا ہے کہ اگلے صدر کو دنیا کے ساتھ نمٹنا ہو گا۔ وہ یوکرین کی جنگ میں ایران کی جانب سے روس کو اسلحہ فراہم کرنے کے ناقد ہیں، شہریوں کے قتل کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس وجہ سے کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ تہران کو اس کی حمایت کے لیے ماسکو سے کافی معاوضہ نہیں مل رہا۔

ان کی انتخابی مہم ممکنہ طور پر علما اور روایت پسندوں کی حمایت پر منحصر ہے۔

محمد باقر قالیباف

ایرانی پارلیمنٹ کے سپیکر 62 سالہ باقر قالیباف ایرانی انتخابات میں حصہ لینے والے موجودہ حکومت میں اعلیٰ ترین عہدے دار ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ انتخابی مہم میں سب سے آگے ہیں جبکہ جلیلی دوسرے نمبر پر ہیں۔

قالیباف تہران کے سابق میئر ہیں جن کے ملک کے نیم فوجی پاسداران انقلاب سے قریبی تعلقات ہیں۔ قالیباف سابق گارڈ جنرل کی حیثیت سے 1999 میں ایرانی یونیورسٹی کے طالب علموں کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن کا حصہ تھے۔ انہوں نے مبینہ طور پر براہ راست فائرنگ کا حکم بھی دیا تھا۔

اس کے علاوہ انہوں نے مبینہ طور پر 2003 میں ملک کے پولیس چیف کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے طالب علموں کے خلاف براہ راست فائرنگ کا حکم دیا تھا۔

قالیباف کا کہنا ہے کہ وہ ایک مضبوط مینیجر کی حیثیت سے آیت اللہ خامنہ ای کے حالیہ بیانات کی روشنی میں ایران کو بحران سے بچا سکتے ہیں۔

قالیباف نے متوسط طبقے پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ غریبوں کے لیے مزید نقد رقم دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا